سرد پڑ جائے خون پانی نہ ہو

سرد پڑ جائے خون پانی نہ ہو
میری تہذیب زعفرانی نہ ہو


انگلیاں آپ کی لہو میرا
کیسے تحریر جاودانی نہ ہو


ختم کرنا ہو اک تعلق بھی
اور دیوار بھی اٹھانی نہ ہو


کہہ رہی ہیں وہ خوش سخن آنکھیں
اب کوئی بات بھی زبانی نہ ہو


جس طرح تم نے اختتام کیا
ختم ایسے کوئی کہانی نہ ہو


نفرتوں کا علاج ممکن ہے
گر یہ بیماری خاندانی نہ ہو


ہم کبھی دل کبھی نظر میں رہیں
لا مکانی ہو بے مکانی نہ ہو


وہ جدا ہو کے ہے ملول بہت
یہ کہیں تیری خوش گمانی نہ ہو