طارق قمر کی غزل

    ہے مصلحت کی اسیر دنیا میں جانتا ہوں

    ہے مصلحت کی اسیر دنیا میں جانتا ہوں کرے گی کس در پہ جا کے سجدہ میں جانتا ہوں ہوا کی جتنی نوازشیں ہیں یہ سازشیں ہیں چراغ اور آندھیوں کا رشتہ میں جانتا ہوں میں اپنے اشکوں کا چھینٹا دے دوں تو ہوش آئے ابھی ہے اس کا ضمیر زندہ میں جانتا ہوں یہ اس کی تیغیں یہ اس کے نیزے یہ اس کے ...

    مزید پڑھیے

    پلا رہا ہے زمیں کو یہاں لہو کوئی اور

    پلا رہا ہے زمیں کو یہاں لہو کوئی اور مگر ہیں پھول کسی کے ہے سرخ رو کوئی اور تری طلب تھی سو ہم دار تک چلے آئے اب آرزو کوئی باقی نہ جستجو کوئی اور یہ اتفاق نہیں ہے کہ قتل ہو جائے تری کہانی میں مجھ سا ہی ہو بہ ہو کوئی اور ہمیشہ بنتی ہوئی بات کو بگاڑتے ہیں کبھی کبھی تو میں خود ہی کبھو ...

    مزید پڑھیے

    خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی

    خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی دل کو سمجھایا تھا اشکوں کی ضرورت ہوگی رنگ محلوں کے حسیں خواب سے بچ کر رہنا ہے خبر گرم کہ خوابوں کی تجارت ہوگی اپنے گھر خود ہی پشیمان سا لوٹ آیا ہوں میں سمجھتا تھا اسے میری ضرورت ہوگی میری تنہائی سکوں دینے لگی ہے مجھ کو اس سے مت کہنا سنے گا تو ...

    مزید پڑھیے

    ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا

    ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا مات اب کے بھی چراغوں کو ہوئی ہے لیکن چاک اس بار ہوا کا بھی گریبان ہوا اوڑھے پھرتا ہوں شہادت کی لہو رنگ قبا رنگ تیرا تھا سو وہ ہی مری پہچان ہوا عادتاً آنکھ چھلک اٹھی ہے ہنستے ہنستے تو مرے دوست بلا وجہ پریشان ...

    مزید پڑھیے

    اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں

    اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں تم صحیفہ ہو سو جزدان میں رکھا ہے تمہیں ساتھ ہونے کے یقیں میں بھی مرے ساتھ ہو تم اور نہ ہونے کے بھی امکان میں رکھا ہے تمہیں ایک کم ظرف کے سائے سے بھلی ہے یہ دھوپ تم سمجھتے ہو کہ نقصان میں رکھا ہے تمہیں جتنے آنسو ہیں سبھی نذر کئے ہیں تم کو ہم ...

    مزید پڑھیے

    لکیر کھینچنا دیوار مت بنا لینا

    لکیر کھینچنا دیوار مت بنا لینا تم اختلاف کو آزار مت بنا لینا بہ نام داد سخن یہ جو شور برپا ہے اسے کلام کا معیار مت بنا لینا کہانی سنتے رہو شوق سے مگر خود کو کسی کہانی کا کردار مت بنا لینا تمہارے اشکوں کی گویائی سے میں ڈرتا ہوں انہیں وسیلۂ اظہار مت بنا لینا محبتوں کے سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک تصویر جلانی ہے ابھی

    ایک تصویر جلانی ہے ابھی ہاں مگر آنکھ میں پانی ہے ابھی اس نے جب ہاتھ ملایا تو لگا دل میں اک پھانس پرانی ہے ابھی ابھی باقی ہے بچھڑنا اس سے نا مکمل یہ کہانی ہے ابھی اے ہوا ایسی بھی عجلت کیا ہے؟ کیا کہیں آگ لگانی ہے ابھی راستہ روک رہی ہے اک یاد یہ بھی دیوار گرانی ہے ابھی یہ جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3