رعایا ظلم پہ جب سر اٹھانے لگتی ہے
رعایا ظلم پہ جب سر اٹھانے لگتی ہے
تو اقتدار کی لو تھرتھرانے لگتی ہے
ہمیشہ ہوتا ہوں کوشش میں بھول جانے کی
وہ یاد اور بھی شدت سے آنے لگتی ہے
حقیر کرتی ہے یوں بھی کبھی کبھی دنیا
مرے ضمیر کی قیمت لگانے لگتی ہے
یہ روشنائی جو پھیلی ہے تیرے اشکوں سے
یہ سسکیوں کی صدائیں سنانے لگتی ہے
غروب ہوتا ہے سورج تو میرے سینے سے
یہ کیسی رونے کی آواز آنے لگتی ہے
یہ مصلحت ہے بجھانے کا جب ارادہ ہو
ہوا دیے کی کمر تھپتھپانے لگتی ہے
مرے دریچے مرے بام مسکراتے ہیں
وہ جب گلی سے مری آنے جانے لگتی ہے