تارا اقبال کی غزل

    آسیب بس گیا کوئی آ کر مکان میں

    آسیب بس گیا کوئی آ کر مکان میں اک نام لیتا رہتا ہے ہر وقت کان میں مجھ کو شگاف کرنا پڑا آسمان میں کوئی خلا جب ہونے لگا درمیان میں دیوار میں درار تو آنی تھی ایک دن سر کب تلک پٹختی خموشی مکان میں وہ کرب ابتسام نہ تفہیم کر سکا احساس کی کمی تھی مرے ترجمان میں کچھ اس سبب بھی درد کا ...

    مزید پڑھیے

    فیصلہ ہی غلط کیا میں نے

    فیصلہ ہی غلط کیا میں نے خود ترا ہجر چن لیا میں نے کوئی شکوہ گلہ کیا میں نے جو دیا تو نے رکھ لیا میں نے جب بھی یاد آئے درد کے پنچھی اک پرندہ رہا کیا میں نے کس قدر دیکھ جذب ہوں تجھ میں تو نے سوچا تو سن لیا میں نے پھر ادھیڑوں گی درد کے سوئیٹر خواب ہی ایسا بن لیا میں نے چشم بینا پہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ وحشت یوں ہی بے معنی نہیں ہے

    یہ وحشت یوں ہی بے معنی نہیں ہے کہ ساتھ اس کی نگہبانی نہیں ہے اسے چاہا تھا جس شدت سے میں نے وہ بچھڑا ہے تو حیرانی نہیں ہے سمندر ہے مری پلکوں کے نیچے وہ کہتا ہے یہاں پانی نہیں ہے مری وحشت سے ہے آباد صحرا مری راہوں میں ویرانی نہیں ہے قیامت آئی تھی چہرہ بدل کر مکمل تو نے پہچانی ...

    مزید پڑھیے

    اشکوں سے میرے ربط پرانے نکل پڑے

    اشکوں سے میرے ربط پرانے نکل پڑے پتھر کے اس دیار سے شانے نکل پڑے اک سنگ سے جو بڑھنے لگیں آشنائیاں دانستہ ہم بھی ٹھوکریں کھانے نکل پڑے گھر واپسی کا وقت تھا ڈھلنے لگی تھی شام بکھرے جہاں جہاں تھے اٹھانے نکل پڑے پھر لے کے آیا ہے انہیں گلیوں میں اضطراب ہم پھر وہیں پہ دھول اڑانے نکل ...

    مزید پڑھیے

    درون جسم اک طوفاں اٹھا تھا

    درون جسم اک طوفاں اٹھا تھا جو دیکھا دور تک ملبہ پڑا تھا مسلسل دھول سے جیسے اٹا تھا ہمیں تو آسماں صحرا لگا تھا نہ اس شب چاند ابھرا اور نہ تارے ہمارا ہجر تو تنہا کٹا تھا جو تم بچھڑے تو خود کو چھوڑ آئے ہماری دسترس میں اور کیا تھا نہ اتری چاندنی نہ روئی شبنم عجب اک دھند کا موسم بنا ...

    مزید پڑھیے

    ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں

    ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں کچھ گنوانے کا مجھے خوف و خطر تھا ہی نہیں مجھ کو ہر شام جہاں لے کے توقع آئی در و دیوار تو موجود تھے گھر تھا ہی نہیں انگلیاں زخمی ہوئیں تب مجھے احساس ہوا دستکیں دی تھیں جہاں پر وہاں در تھا ہی نہیں مجھ سے ہی پوچھا کیے میرے بکھرنے کا سبب اہل ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہنا تھا بھول گئی میں آنکھوں کی اس جل تھل میں

    کیا کہنا تھا بھول گئی میں آنکھوں کی اس جل تھل میں اب کے ملنے جاؤں گی میں گرہ لگا کر آنچل میں جب تک اس کا شہر دکھا دیکھا ریل کی کھڑکی سے بعد حزیں پھر بیٹھ کے میں نے یاد نچوڑیں آنچل میں دور تلک ہے دھواں دھواں سا دشا دکھے نہ کوئی ڈگر جیسے آگ سلگتی کوئی چھوڑ گیا ہو جنگل میں شام ڈھلے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی دریا کبھی صحرا رہی ہوں

    کبھی دریا کبھی صحرا رہی ہوں تمہاری ذات کا حصہ رہی ہوں اکیلی ہوں تو ہیں یادیں تمہاری تمہارے ساتھ تو تنہا رہی ہوں کوئی تھی اور ہی منزل تمہاری یقیناً میں فقط رستہ رہی ہوں دلاؤں یاد کیا دے کر حوالہ کوئی بے نام سا رشتہ رہی ہوں گزر جا تو دبے پاؤں یہاں سے میں خود کو باتوں میں الجھا ...

    مزید پڑھیے

    لبوں پہ آہ تو آنکھوں سے اشک باری ہے

    لبوں پہ آہ تو آنکھوں سے اشک باری ہے جو سچ کہوں تو ترا عشق اشتہاری ہے گو آفتاب سے بچھڑے اسے زمانہ ہوا زمیں کا اب بھی مسلسل طواف جاری ہے بتا گیا یہی آنکھوں میں ڈوب کر سورج شب فراق بہت آج تجھ پہ بھاری ہے زباں خموش مگر چیختے ہیں خال و خد یہ کیسا صبر ہے یہ کیسی برد باری ہے تمام عمر ...

    مزید پڑھیے