یہ وحشت یوں ہی بے معنی نہیں ہے
یہ وحشت یوں ہی بے معنی نہیں ہے
کہ ساتھ اس کی نگہبانی نہیں ہے
اسے چاہا تھا جس شدت سے میں نے
وہ بچھڑا ہے تو حیرانی نہیں ہے
سمندر ہے مری پلکوں کے نیچے
وہ کہتا ہے یہاں پانی نہیں ہے
مری وحشت سے ہے آباد صحرا
مری راہوں میں ویرانی نہیں ہے
قیامت آئی تھی چہرہ بدل کر
مکمل تو نے پہچانی نہیں ہے
مسلسل پڑھ رہی ہوں زیست تجھ کو
فقط اوراق گردانی نہیں ہے
تری یادیں مرا رخت سفر ہیں
سفر میں اب پریشانی نہیں ہے
سنبھل کر خرچ کر آنکھوں سے تاراؔ
سفر لمبا ہے اور پانی نہیں ہے