لبوں پہ آہ تو آنکھوں سے اشک باری ہے

لبوں پہ آہ تو آنکھوں سے اشک باری ہے
جو سچ کہوں تو ترا عشق اشتہاری ہے


گو آفتاب سے بچھڑے اسے زمانہ ہوا
زمیں کا اب بھی مسلسل طواف جاری ہے


بتا گیا یہی آنکھوں میں ڈوب کر سورج
شب فراق بہت آج تجھ پہ بھاری ہے


زباں خموش مگر چیختے ہیں خال و خد
یہ کیسا صبر ہے یہ کیسی برد باری ہے


تمام عمر ہی بے سمتیاں رہیں حائل
ابھی بھی مجھ میں مسلسل سفر یہ جاری ہے


دھواں دھواں ہے نظر گرد گرد ہے منظر
درون خانہ کوئی مجھ میں جنگ جاری ہے


تمہاری سرد روی سے ہی منجمد ہے لہو
یہ صرف کہنے کو موسم کی برف باری ہے


لہو سے سینچ رہی ہوں میں تاراؔ برگ سخن
نہ یہ سمجھنا کہ اشکوں کی آبیاری ہے