اشکوں سے میرے ربط پرانے نکل پڑے
اشکوں سے میرے ربط پرانے نکل پڑے
پتھر کے اس دیار سے شانے نکل پڑے
اک سنگ سے جو بڑھنے لگیں آشنائیاں
دانستہ ہم بھی ٹھوکریں کھانے نکل پڑے
گھر واپسی کا وقت تھا ڈھلنے لگی تھی شام
بکھرے جہاں جہاں تھے اٹھانے نکل پڑے
پھر لے کے آیا ہے انہیں گلیوں میں اضطراب
ہم پھر وہیں پہ دھول اڑانے نکل پڑے
خلوت ملی تو چیخ پڑیں بے زبانیاں
سینے میں درد شور مچانے نکل پڑے
مضطر دل تباہ کی نادانیاں تو دیکھ
جس کو گنوا کے آئے تھے پانے نکل پڑے
بڑھنے لگی خلش تو امنڈ آئیں بارشیں
صحرا میں ہم بھی سبزہ اگانے نکل پڑے
کچھ بھی انا کا زعم نہ خودداریوں کا پاس
تاراؔ ہم اس کو خود ہی منانے نکل پڑے