آسیب بس گیا کوئی آ کر مکان میں
آسیب بس گیا کوئی آ کر مکان میں
اک نام لیتا رہتا ہے ہر وقت کان میں
مجھ کو شگاف کرنا پڑا آسمان میں
کوئی خلا جب ہونے لگا درمیان میں
دیوار میں درار تو آنی تھی ایک دن
سر کب تلک پٹختی خموشی مکان میں
وہ کرب ابتسام نہ تفہیم کر سکا
احساس کی کمی تھی مرے ترجمان میں
کچھ اس سبب بھی درد کا احساس تھا زیاں
گرد سفر ہی رہ گئی حاصل تھکان میں
کل شب شب فراق کی محرومیاں نہ پوچھ
تمہید ہجر بھی رہی شامل اذان میں
چیخوں سے جاگ اٹھے کئی منجمد بھنور
کوئی دعا تھمی سی رہی آسمان میں
مدت سے خود کلامی ہے تاراؔ بھی کیا کریں
جالے سے جیسے پڑنے لگے ہیں زبان میں