درون جسم اک طوفاں اٹھا تھا
درون جسم اک طوفاں اٹھا تھا
جو دیکھا دور تک ملبہ پڑا تھا
مسلسل دھول سے جیسے اٹا تھا
ہمیں تو آسماں صحرا لگا تھا
نہ اس شب چاند ابھرا اور نہ تارے
ہمارا ہجر تو تنہا کٹا تھا
جو تم بچھڑے تو خود کو چھوڑ آئے
ہماری دسترس میں اور کیا تھا
نہ اتری چاندنی نہ روئی شبنم
عجب اک دھند کا موسم بنا تھا
مسلسل الجھنوں میں وہ گھرا تھا
مجھے وہ شخص کب تنہا ملا تھا
کریدا کیا اتر آئی نمی سی
وہ صحرا ہی ابھی شاید نیا تھا
اڑائی دھول خوابوں میں مسلسل
مری آنکھوں میں اک وحشت کدہ تھا
جواز اس میں خوشی کا کیا ہے تاراؔ
بصد محرومی وہ تجھ سے ملا تھا