کہیں سے شمع اٹھا لاؤ
ہزار لاکھ امیدوں کا ہم سفر سورج یہاں سے دور بہت دور تھک کے بیٹھ گیا کبھی وہ دل کے دریچے سے جھانکتا تھا کبھی الجھتا رہتا تھا پلکوں کی چھاؤں سے اکثر مری رگوں میں رواں تھا کبھی لہو کی طرح کتاب عمر کا چالیسواں ورق چھو کر الجھ گیا ہوں کوئی راستہ نہیں ملتا یہاں سے دور بہت دور تک اندھیرا ...