Tanha Timmapuri

تنہا تماپوری

تنہا تماپوری کی نظم

    کہیں سے شمع اٹھا لاؤ

    ہزار لاکھ امیدوں کا ہم سفر سورج یہاں سے دور بہت دور تھک کے بیٹھ گیا کبھی وہ دل کے دریچے سے جھانکتا تھا کبھی الجھتا رہتا تھا پلکوں کی چھاؤں سے اکثر مری رگوں میں رواں تھا کبھی لہو کی طرح کتاب عمر کا چالیسواں ورق چھو کر الجھ گیا ہوں کوئی راستہ نہیں ملتا یہاں سے دور بہت دور تک اندھیرا ...

    مزید پڑھیے

    چہرہ کہاں ہے

    عمر پختہ ہو چکی ہے جسم قدرے بھر گیا ہے رنگ بھی نکھرا ہوا ہے ذہن یہ سب چھوڑیئے چہرہ کہاں ہے

    مزید پڑھیے

    جینے کی خواہش

    سوچ کے دھاگے دور کھڑے گونگے ہاتھوں سے اجڑے پیڑ کی سوکھی شاخوں پر اک پتا باندھ رہے ہیں میرے جینے کی خواہش مصلوب ہوئی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2