کوئی دیکھے تو یہ انداز ستانے والا
کوئی دیکھے تو یہ انداز ستانے والا
مجھ سے غافل ہے مرے خواب میں آنے والا
بعض اوقات یہ دیکھا ہے تری گلیوں میں
راستہ بھول گیا راہ بتانے والا
درس عبرت مرا انجام ہے دنیا کے لیے
اب تری باتوں میں کوئی نہیں آنے والا
گمرہی کا مجھے احساس دلا دیتا ہے
بعض اوقات کوئی ٹھوکریں کھانے والا
میٹھی میٹھی سی مرے دل میں کسک چھوڑ گیا
خلوت ذہن میں چپکے سے در آنے والا
گھر میں یہ جشن چراغاں کا سماں کیا معنی
اس خرابے میں بھلا کون ہے آنے والا
اپنے اعمال و عقائد کو پرکھتے رہئے
اب کوئی اور پیمبر نہیں آنے والا
کیا کہوں کون ہے موضوع سخن اے طاہرؔ
ایک کردار تراشا ہے فسانے والا