خلش زخم تمنا کا مداوا بھی نہ تھا

خلش زخم تمنا کا مداوا بھی نہ تھا
میں نے وہ چاہا جو تقدیر میں لکھا بھی نہ تھا


اتنا یاد آئے گا اک روز یہ سوچا بھی نہ تھا
ہائے وہ شخص کہ جس سے کوئی رشتہ بھی نہ تھا


کیوں اسے دیکھ کے بڑھتی تھی مری تشنہ لبی
ابر پارہ بھی نہ تھا وہ کوئی دریا بھی نہ تھا


دل وہ صحرا کہ جہاں اڑتی تھی حالات کی گرد
غم وہ بادل جو کبھی کھل کے برستا بھی نہ تھا


تو نے کیوں جاگتے رہنے کی سزا دی مجھ کو
تیرے بارے میں کوئی خواب تو دیکھا بھی نہ تھا


ہو گئے لوگ یہ کیوں میرے لہو کے پیاسے
میں نے تو آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا بھی نہ تھا


کچھ جھجکتی ہوئی نظریں بھی تھیں محو گلگشت
میں چمن زار تصور میں اکیلا بھی نہ تھا


بعض راتوں میں یہ منظر بھی نظر سے گزرا
شمع بھی جلتی رہی گھر میں اجالا بھی نہ تھا


کبھی بن جائے گی یوں یاد تری جزو حیات
میں نے اس رخ سے ترے باب میں سوچا بھی نہ تھا


آسماں اور زمیں حد نظر تک تھے محیط
ہم کہاں جاتے نکل کر کوئی رستہ بھی نہ تھا


کچھ امیدیں تھیں امنگیں تھیں تمنائیں تھیں
دل تری راہ میں نکلا تو اکیلا بھی نہ تھا


عمر بھر کرتے رہے گھر کی تمنا طاہرؔ
اور تقدیر میں دیوار کا سایہ بھی نہ تھا