تبسم ضیا کی نظم

    سلم ڈاگس

    گرمیوں کے موسم میں لالٹین کی آگ سینکتے ہیں تو ٹھنڈا بلب مسکراتا ہے اور ہماری بے بسی پر منہ چڑاتا ہے بہت سی ہڈیاں کھال کے تھیلے میں پڑی چبھتی رہتی ہیں روزانہ کئی کتے خوراک کی تلاش میں مصروف کچرے کے ڈھیر پہ ایک دوسرے پر غراتے ہیں زمین کے بالوں میں کنگھی کرتی گرم سرد ...

    مزید پڑھیے

    دروازوں کی خود کشی

    دروازے کیا ہوتے ہیں کیا دروازے باہر جانے کے لیے ہیں یا صرف اندر آنے کے لیے دروازوں کا درست مصرف سمجھنے سے فلسفی قاصر رہے ہم تمام عمر ان کی حقیقت سے نا آشنا رہے ہمیں معلوم نہ ہو سکا اور دروازے ہمارے اندر سے خارج ہو گئے یا شاید اپنے ہی اندر داخل ہو گئے داخل اور خارج ہونے کی بحث ...

    مزید پڑھیے

    کلّن

    ۱ کلن کی خود کلامی میں بیاہ رچاؤں گی کچھ روپے ہو جائیں میں کچرا اچھی طرح صاف کر سکتی ہوں برتن مانج لیتی ہوں جھاڑن بھی چلا لیتی ہوں مجھے کھانا بہت اچھا پکانا آتا ہے میں کوٹھیوں میں کام کروں گی کچھ روپے ہو جائیں تو اپنا بیاہ رچاؤں گی ۲ کلن پوچھا لگاتی ہے تو پنڈلیاں ننگی ہو جاتی ...

    مزید پڑھیے

    خود رسوا

    میرے دل میں اگتی پیار کی فصل کو جب لوگوں کی نفرت کے فضلے کی کھاد ملی تو سٹے چمک کر سونا ہو گئے پھر وہی فصل کاٹنے کا وقت آیا تو میرے خلوص کی درانتی کند ہو گئی اور دل شکم کے آنسوؤں سے بھر آیا درانتی خوب چلائی گئی لیکن فصل نہ کٹی میرے ہاتھوں پر کیچڑ لگا ہوا تھا سٹے نیلے ہو چکے ...

    مزید پڑھیے

    محبت کا ابارشن

    تمہیں پتا ہے محبت کیا ہے نہیں میں بتاتا ہوں تمہیں پچھلے دسمبر تک یہ جذبہ مجھ میں اس قدر تھا کہ میری قلب دانی میں محبت کا حمل ٹھہر گیا وہ میرے دل کی کوکھ میں پلتی رہی وہ زندہ تھی میں نے ایک لمس کو محسوس کیا تھا بس ذرا سی جلدی نے وقت سے پہلے اسے جنم دیا اور وہ مرحوم ہو گئی

    مزید پڑھیے

    نظم کے انگوٹھے کھلے ہیں

    کوئی کہتا ہے خدا زمیں سے گیا نہیں مگر کیا وجہ ہے کہ شیطان بوڑھے نہیں ہوتے ان کا طوطی بولتا ہے ہاں ضعیف کام کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور نظم بزرگوں سے مقابلہ نہیں کرتی میں مر جاؤں گا یقیناً مجھے مرنا ہے لیکن اس نظم کو جسے میں نے کچھ دیر پہلے جنا اسے قتل کرنا ممکن نہیں میرے نفس ہونے کی ...

    مزید پڑھیے

    آئی ایم بلیو

    میں تنہا تھا کل بھی اور آج بھی میں جانتا تھا کہ میں نیلا ہوں لیکن تمہاری آواز پر میں باہر نکل آیا گورے کالے اور خاکستریوں کے درمیان اور اب میں زخمی ہوں کاش تم مجھ سے نفرت کرتیں تو میں واپس تنہائی کے تنے میں چھپ جاتا جہاں میرے آنسو شاخوں پر اگتے اور میں فن کے میٹھے پھل دیتا تم نے ...

    مزید پڑھیے

    فن قاتل ہے

    فن کے بت کدے میں داخل ہو کر اپنے رنگوں میں ہاتھ گھولنا اپنی شاعری کی بنسی بجانا اپنے افسانوں کے ہر ایک صنم سے مخاطب ہونا اور سروں سے ہم کلام ہونا فن کار کی زندگی کا خلاصہ ہے فن کار فن کھاتا ہے فن اوڑھتا ہے فن دیکھتا ہے فن سنتا ہے لیکن اس کی مصوری اس کی شاعری اس کی موسیقی اور اس کی ...

    مزید پڑھیے