فن قاتل ہے

فن کے بت کدے میں داخل ہو کر
اپنے رنگوں میں ہاتھ گھولنا
اپنی شاعری کی بنسی بجانا
اپنے افسانوں کے ہر ایک صنم سے مخاطب ہونا
اور سروں سے ہم کلام ہونا
فن کار کی زندگی کا خلاصہ ہے


فن کار فن کھاتا ہے
فن اوڑھتا ہے
فن دیکھتا ہے
فن سنتا ہے
لیکن اس کی مصوری
اس کی شاعری
اس کی موسیقی
اور اس کی کہانیوں کا نتیجہ المیہ ہے


مجید امجدؔ اپنی دلہن کے پہلو میں جان دے کر اسے سہاگن رکھتا ہے
اور ماضی کا حصہ بن کر حال میں زندہ رہتا ہے
فن کار کی خانقاہ لنگر سے ماورا ہے