آئی ایم بلیو
میں تنہا تھا
کل بھی اور آج بھی
میں جانتا تھا کہ میں نیلا ہوں
لیکن تمہاری آواز پر میں باہر نکل آیا
گورے کالے اور خاکستریوں کے درمیان
اور اب میں زخمی ہوں
کاش تم مجھ سے نفرت کرتیں تو میں واپس تنہائی کے تنے میں چھپ جاتا
جہاں میرے آنسو شاخوں پر اگتے
اور میں فن کے میٹھے پھل دیتا
تم نے جب جب آواز دی
میری تنہائی مجھ سے روٹھ گئی
اور میں ہر بار کراہتا ہوا لوٹا
رحم ایک افسانہ ہے
مجھ پر لکھ ڈالو
کبھی تو احساس کو انگلیوں پہ گن ڈالو
میں اپنے غموں اور خوشیوں
عیدوں اور شب راتوں کی ساتھی
اپنی دلہن تنہائی کو
بھیرویں کے کومل سروں کی طرح
سدا سہاگن رکھوں گا