Syed Arif

سید عارف

سید عارف کی غزل

    آؤ کہ کوئی خواب کریں ان کے حوالے

    آؤ کہ کوئی خواب کریں ان کے حوالے دیکھے ہی نہیں جن نے کبھی دن میں اجالے پاگل سا ہوا جاتا ہے خاموش سمندر پانی پہ برس جاتے ہیں جب چاند کے ہالے ہم سا بھی گنہ گار کوئی ہو تو بتاؤ پتھر پہ کھلائے ہیں بہت خون سے لالے منظر کوئی ہنستا ہوا آنکھوں میں چھپا لوں ہے کون جو اک پل کے لئے موت کو ...

    مزید پڑھیے

    سورج ستارے چاند جو برباد ہو گئے

    سورج ستارے چاند جو برباد ہو گئے اندھی صدا کی قید سے آزاد ہو گئے شہر پناہ ٹوٹ کے لو ہو گیا کھنڈر ادھ کچی آرزوؤں سے ہم شاد ہو گئے پھر ڈھونڈھتی پھرے گی یہ پاگل ہوا کسے سونے جزیرے ہم سے جو آباد ہو گئے لوٹ آئیں گے پرندے نئی رت کے ساتھ ساتھ قصے کہانیوں کے وہ دن یاد ہو گئے اظہار چیختا ...

    مزید پڑھیے

    منظر یہ اپنی آنکھ میں کیسا اتر گیا

    منظر یہ اپنی آنکھ میں کیسا اتر گیا شیشے کی سمت دیکھا تو شیشہ بکھر گیا اک خواب تھا جو مجھ سے بیاں ہو نہیں سکا اک رنگ تھا جو دھوپ سے ٹکرا کے مر گیا ایسا ہوا کہ نیند بھی رستہ بھٹک گئی سورج بھی جلتی آنکھ میں سب دھوپ بھر گیا کیسی یہ رات ہے کہ ہوا بھی لرز اٹھی کیسی یہ روشنی کہ ستارہ ...

    مزید پڑھیے

    ڈرتا ہوں زندگی کے وسیلے نہیں ملے

    ڈرتا ہوں زندگی کے وسیلے نہیں ملے آنکھوں کو اب کے خواب رنگیلے نہیں ملے سورج کی پیاس تھی جو سمندر سکھا گئی ہم کو رسیلے ہونٹ بھی گیلے نہیں ملے بکھرا ہوا ملا ہے ہر اک فرد بھی وہاں آباد تھے مگر وہ قبیلے نہیں ملے اتنی سی بات پر ہمیں ناراض وہ ملا لوٹے جو شہر سے تو سجیلے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرا خواب جو مہتاب ہونے والا تھا

    وہ میرا خواب جو مہتاب ہونے والا تھا پلٹ کے دیکھا تو کم آب ہونے والا تھا برستی آگ کا موسم بھی ساتھ چلتا ہے مرا گمان کہ شاداب ہونے والا تھا بلاوا مٹی کا آیا تھا سانس لینے پر سفر تو یوں بھی مرا خواب ہونے والا تھا امڈ کے آئے تھے آنسو کہ جلتی آنکھوں میں وفا کا رنگ بھی نایاب ہونے والا ...

    مزید پڑھیے

    کہیں پہ خواب کہیں خواب کا گماں نکلا

    کہیں پہ خواب کہیں خواب کا گماں نکلا یہاں بھی آدمی آخر کو بے نشاں نکلا صنم تراشے ہیں تو نے ہی اپنی مرضی سے جبین شوق ترا حوصلہ کہاں نکلا اگر عذاب سے نکلے تو یہ بھی دیکھیں گے زمیں کے کون سے حصے سے آسماں نکلا گزرتی شام کے منظر پہ رات ہنس کے تو دیکھ مرے لہو کا اگر شعلہ نہاں نکلا

    مزید پڑھیے

    نشہ نشہ سا ہوائیں رچائے پھرتی ہیں (ردیف .. ا)

    نشہ نشہ سا ہوائیں رچائے پھرتی ہیں کھلا کھلا سا ہے موسم ترے سنورنے کا میں عکس عکس چھپا ہوں ہزار شیشوں میں مجھے ہے شوق یہ رنگوں سے اب گزرنے کا کٹے گی ڈور نہ جب تک الجھتی سانسوں کی تماشہ خوب رہے گا یہ روپ ابھرنے کا یہ روز روز ستاروں کا ٹوٹنا عارفؔ سبب بنا ہے زمیں کے شگاف بھرنے کا

    مزید پڑھیے

    لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

    لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں تو مجھے اور میں تجھے الزام دیتا ہوں مگر اپنے اندر جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں مصلحت نے کر دیا دونوں میں پیدا اختلاف ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں چاہتے دونوں بہت اک دوسرے کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2