منظر یہ اپنی آنکھ میں کیسا اتر گیا

منظر یہ اپنی آنکھ میں کیسا اتر گیا
شیشے کی سمت دیکھا تو شیشہ بکھر گیا


اک خواب تھا جو مجھ سے بیاں ہو نہیں سکا
اک رنگ تھا جو دھوپ سے ٹکرا کے مر گیا


ایسا ہوا کہ نیند بھی رستہ بھٹک گئی
سورج بھی جلتی آنکھ میں سب دھوپ بھر گیا


کیسی یہ رات ہے کہ ہوا بھی لرز اٹھی
کیسی یہ روشنی کہ ستارہ بھی ڈر گیا


پتھرا گئے ہیں پھول سے معصوم لوگ بھی
بستی پہ اپنی کون سا موسم گزر گیا