Sultan Rashk

سلطان رشک

سلطان رشک کی غزل

    خوشیاں نہ چھوڑ اپنے لیے غم طلب نہ کر

    خوشیاں نہ چھوڑ اپنے لیے غم طلب نہ کر اے ہم نشیں یہاں کوئی محرم طلب نہ کر کن ہجرتوں کے بعد ہوا ہے یہ معتبر پروردگار مجھ سے مرا غم طلب نہ کر کچھ اور زخم کھا کہ ملے منزل مراد لمحوں سے اپنے زخم کا مرہم طلب نہ کر اے دل کسی سے مل کے بچھڑنے میں فائدہ مضمر ہے جو وصال میں وہ سم طلب نہ ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت بہ ہر مقام خلاف طلب ملی

    ظلمت بہ ہر مقام خلاف طلب ملی دن کا سراغ ڈھونڈنے والوں کو شب ملی اے دوست تیرے حسن عنایت کی خیر ہو یہ آگہی ہمیں ترے غم کے سبب ملی یاد غزل رخاں بھی خیال معاش بھی آسودگی دیار‌ تمنا میں کب ملی نکلے تھے تیرگی کے مسلسل فریب سے جب روشنی ملی تو ہمیں جاں بہ لب ملی قصہ تری وفا کا ستم ...

    مزید پڑھیے

    یوں خلاؤں میں نہایت غور سے دیکھا نہ کر

    یوں خلاؤں میں نہایت غور سے دیکھا نہ کر میرے بارے میں مری جاں اس قدر سوچا نہ کر بندگی کو لوگ دے لیتے ہیں کمزوری کا نام عجز اچھا ہے مگر تو خود کو نقش پا نہ کر ہو سکے تو دل میں پیدا کر محبت کا خیال یہ مقدس لفظ سطح آب پر لکھا نہ کر ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں آئینے اخلاص کے اپنی آنکھوں سے یہ ...

    مزید پڑھیے

    نفرت جو ہے دل میں لب خنداں میں نہیں ہے

    نفرت جو ہے دل میں لب خنداں میں نہیں ہے جو بات ہے مضموں میں وہ عنواں میں نہیں ہے کیا جانئے کل پچھلے پہر کیسی ہوا تھی خوشبو کا پتہ آج گلستاں میں نہیں ہے اے مسجد اقصیٰ تو جلے اور میں دیکھوں کیا عزم تحفظ بھی نگہباں میں نہیں ہے مطلوب ہے وہ جنس جو نایاب بہت ہے اس چیز کی خواہش ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    جو نظر آتا نہیں دیوار میں در اور ہے

    جو نظر آتا نہیں دیوار میں در اور ہے ان ستم گاروں کے پیچھے اک ستم گر اور ہے جو نظر آتا نہیں رستے کا پتھر اور ہے میں نہیں ہوں میرے اندر ایک خود سر اور ہے ان فضاؤں میں مگر میرا گزر ممکن نہیں میری منزل اور ہے میرا مقدر اور ہے ہم ہیں طوفان حوادث میں ہمیں معلوم ہے تم سمجھ سکتے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے

    دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے اپنے ہم راہ بہا لے گیا سیلاب مجھے وہ ترے قرب کی خوشبو کو عیاں ہو نہ نہاں وہ حقیقت بھی نظر آتی ہے اک خواب مجھے میں کہ ساحل کا تمنائی تھا لیکن اب تو اپنے آغوش میں لیتا نہیں گرداب مجھے میں تو صدیوں کا ننداسا ہوں مگر یہ تو بتاؤ کیوں یہ ماحول نظر ...

    مزید پڑھیے

    رنگ لائی ہے مری ذات سے غفلت میری

    رنگ لائی ہے مری ذات سے غفلت میری میرے اندر متزلزل ہے حکومت میری بیچتا پھرتا ہوں خود کو سر بازار حیات مجھ کو رسوا کئے رکھتی ہے ضرورت میری ڈوبتا جاتا ہے ہر شخص سر ساحل شب بڑھتی جاتی ہے مگر شب سے عقیدت میری آتے جاتے ہیں مہ و مہر بشر کی زد میں اور میں خوش کہ درخشاں ہے روایت ...

    مزید پڑھیے

    موسم گل کنج گلشن نکہت گیسو نہ ہو

    موسم گل کنج گلشن نکہت گیسو نہ ہو اب یہی خواہش ہے تسکیں کا کوئی پہلو نہ ہو میں کہ تیری روح کا اظہار ہوں ممکن نہیں تیری باتوں میں مرے افکار کی خوشبو نہ ہو اے ثنا خوان تجلی یہ بھی سوچا ہے کبھی یہ سراسیمہ تجلی رات کا جادو نہ ہو امتحان تشنگی کی منزل آخر ہے یہ اے دل نا عاقبت اندیش بے ...

    مزید پڑھیے

    بڑی دانائی سے انداز عیاری بدلتے ہیں

    بڑی دانائی سے انداز عیاری بدلتے ہیں بدلتے موسموں میں جو وفاداری بدلتے ہیں گرانی ہو کہ ارزانی انہیں تو مل ہی جاتے ہیں ضرورت جب بھی ہوتی ہے وہ درباری بدلتے ہیں ضرورت ایسے اہل دل کی ہے اب میرے لوگوں کو جو ترتیب رموز زندگی ساری بدلتے ہیں تعلق کیا فقیران حرم کا شہریاروں سے ہم ایسے ...

    مزید پڑھیے

    میرے خوش آئند مستقبل کا پیغمبر بھی تو

    میرے خوش آئند مستقبل کا پیغمبر بھی تو میری بربادی کا میری جان پس منظر بھی تو تو کہ فطرت کی طرح ہے کس طرح تسخیر ہو یار خوش منظر بھی تو ضدی بھی تو خود سر بھی تو اک تضاد حسن معنی ہے تری تعمیر میں دسترس میں بھی گرفت وقت سے باہر بھی تو تیرے چہرے سے عیاں اس کے نہ ملنے کا الم خوش نظر آتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2