یوں خلاؤں میں نہایت غور سے دیکھا نہ کر
یوں خلاؤں میں نہایت غور سے دیکھا نہ کر
میرے بارے میں مری جاں اس قدر سوچا نہ کر
بندگی کو لوگ دے لیتے ہیں کمزوری کا نام
عجز اچھا ہے مگر تو خود کو نقش پا نہ کر
ہو سکے تو دل میں پیدا کر محبت کا خیال
یہ مقدس لفظ سطح آب پر لکھا نہ کر
ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں آئینے اخلاص کے
اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ پر شکوہ نہ کر
دے سکے تجھ کو کبھی تیری وفاؤں کا جواب
اس حوالے سے کبھی رخ جانب دنیا نہ کر
جن کی تعبیریں نہیں ممکن کبھی سلطان رشکؔ
ہو سکے تو اس طرح کے خواب بھی دیکھا نہ کر