میرے خوش آئند مستقبل کا پیغمبر بھی تو
میرے خوش آئند مستقبل کا پیغمبر بھی تو
میری بربادی کا میری جان پس منظر بھی تو
تو کہ فطرت کی طرح ہے کس طرح تسخیر ہو
یار خوش منظر بھی تو ضدی بھی تو خود سر بھی تو
اک تضاد حسن معنی ہے تری تعمیر میں
دسترس میں بھی گرفت وقت سے باہر بھی تو
تیرے چہرے سے عیاں اس کے نہ ملنے کا الم
خوش نظر آتا نہیں اس شخص سے مل کر بھی تو
میرے فن کی ساری زیبائش تری نسبت سے ہے
جو چھپا ہے میرے شعروں میں وہ دانشور بھی تو
روح تو پہلے بھی تھی اب کے بدن بھی ہے اسیر
اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہو مرا پیکر بھی تو
تو ہی سنگ میل ہے اپنے لیے سلطان رشکؔ
اپنے ہی رستے میں جو حائل ہے وہ پتھر بھی تو