Sultan Rashk

سلطان رشک

سلطان رشک کی غزل

    لکھ رہا ہوں حرف حق حرف وفا کس کے لیے

    لکھ رہا ہوں حرف حق حرف وفا کس کے لیے مانگتا ہوں زندہ رہنے کی دعا کس کے لیے پھول ہیں سب ایک گلشن کے تو پھر تخصیص کیوں صحن گلشن میں یہ زہریلی ہوا کس کے لیے میں تو ناکام محبت ہوں چلو رسوا ہوا تو بتا ہے تیرا پیمان وفا کس کے لیے میں تو اک خواہش کی بھی تکمیل پر قادر نہیں یہ شکوہ ...

    مزید پڑھیے

    رسم دنیا جان کر ہرگز نہ یارانہ کرو

    رسم دنیا جان کر ہرگز نہ یارانہ کرو دوستی کے باب میں دل کا کہا مانا کرو ایک دھیما سا تبسم رسم ہی سی بن گیا دوستو اپنے پرائے کو تو پہچانا کرو روشنی کا قحط ہے پر فکر فردا کس لیے خون کی تنویر سے روشن سیہ خانہ کرو چھوٹی موٹی بات ہو تو جنس غم دیتے رہو جرم ہو سنگین تو خوشیوں کا جرمانہ ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ کی شدت میں ننگے پاؤں ننگے سر نکل

    دھوپ کی شدت میں ننگے پاؤں ننگے سر نکل اے دل سادہ سواد جبر سے باہر نکل کل کا سورج شاد کامی کی خبر دے یا نہ دے چھوڑ اندیشے حصار ذات سے باہر نکل میں کئی صدیوں سے گم ہوں خواب کے سکرات میں آفتاب صبح بیداری مرے سر پر نکل ساحلوں پر تیرے استقبال کو آیا ہے کون ڈوبنے والے ابھر پھر سطح ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیوں باتوں سے جلتے ہیں گلے کرتے ہیں لوگ

    جانے کیوں باتوں سے جلتے ہیں گلے کرتے ہیں لوگ تیری میری دوستی کے تذکرے کرتے ہیں لوگ سنگ باری کر رہے ہیں دوسروں کے صحن میں اور چکنا چور اپنے آئنے کرتے ہیں لوگ جن کا دعویٰ تھا مداوا ہوگا سب کے درد کا اب تو ان کی ذات پر بھی تبصرے کرتے ہیں لوگ اپنا گھر روشن ہو ظلمت میں رہے سارا ...

    مزید پڑھیے

    عجب انسان ہوں خوش فہمیوں کے گھر میں رہتا ہوں

    عجب انسان ہوں خوش فہمیوں کے گھر میں رہتا ہوں میں جس منظر میں ہوں گم اس کے پس منظر میں رہتا ہوں جو میں ظاہر میں ہوں یہ تو سراب ذات ہے یارو میں اپنے ذہن کے بت خانۂ آذر میں رہتا ہوں جو مجھ سے میری ہستی لے گیا تھا ایک ساعت میں بڑی مدت سے میں اس شخص کے پیکر میں رہتا ہوں کوئی مانوس چاپ ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا عدل جہانگیر اور ہی کچھ ہے

    تمہارا عدل جہانگیر اور ہی کچھ ہے مری خطا مری تقصیر اور ہی کچھ ہے بیان‌ واعظ رنگیں نوا ہے خوب مگر ہمارے شہر کی تصویر اور ہی کچھ ہے کتاب میں جو لکھا ہے درست ہے لیکن ہمارے خواب کی تعبیر اور ہی کچھ ہے حسین تر ہے فروغ نظر ہے حسن جہاں تمہارا حسن ہمہ گیر اور ہی کچھ ہے سخن وروں نے ...

    مزید پڑھیے

    اس کی جانب دیکھتے تھے اور سب خاموش تھے

    اس کی جانب دیکھتے تھے اور سب خاموش تھے اس کی آنکھیں بولتی تھیں اور لب خاموش تھے یوں تو دل والے تھے محفل تھی مگر عالم تھا یہ اس کا جادو تھا جو حیرت کے سبب خاموش تھے چاند اک نزدیک سے دیکھا تھا جب سمران میں ہم بھی کچھ کہتے پر اپنے چشم و لب خاموش تھے اک سکوت مرگ طاری تھا چمن زادوں کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2