ظلمت بہ ہر مقام خلاف طلب ملی

ظلمت بہ ہر مقام خلاف طلب ملی
دن کا سراغ ڈھونڈنے والوں کو شب ملی


اے دوست تیرے حسن عنایت کی خیر ہو
یہ آگہی ہمیں ترے غم کے سبب ملی


یاد غزل رخاں بھی خیال معاش بھی
آسودگی دیار‌ تمنا میں کب ملی


نکلے تھے تیرگی کے مسلسل فریب سے
جب روشنی ملی تو ہمیں جاں بہ لب ملی


قصہ تری وفا کا ستم روزگار کے
جو شے ہمیں ملی ہے وہی منتخب ملی


فرصت طلب مسائل عصر رواں بھی تھے
لیکن ترے خیال سے فرصت ہی کب ملی


سلطان رشکؔ خود سے شناسائی کے لیے
دیکھیں گے خواب فرصت تعبیر جب ملی