موسم گل کنج گلشن نکہت گیسو نہ ہو

موسم گل کنج گلشن نکہت گیسو نہ ہو
اب یہی خواہش ہے تسکیں کا کوئی پہلو نہ ہو


میں کہ تیری روح کا اظہار ہوں ممکن نہیں
تیری باتوں میں مرے افکار کی خوشبو نہ ہو


اے ثنا خوان تجلی یہ بھی سوچا ہے کبھی
یہ سراسیمہ تجلی رات کا جادو نہ ہو


امتحان تشنگی کی منزل آخر ہے یہ
اے دل نا عاقبت اندیش بے قابو نہ ہو


میں فروغ بزم امکاں میں امیر کارواں
میں غریب شہر نا پرساں جو میرا تو نہ ہو


ہم نے دیکھے زندگی میں ایسے بھی لمحات جب
ضبط کا یارانہ ہو اور آنکھ میں آنسو نہ ہو


رشکؔ صاحب میں اسیر جرم نا معلوم ہوں
کیسے ممکن ہے مجھے ناکامیوں کی خو نہ ہو