خود سے کوئی مکر گیا ہوگا

خود سے کوئی مکر گیا ہوگا
عشق دریا اتر گیا ہوگا


نہیں دیکھا کوئی گریباں چاک
ایک مجنوں تھا مر گیا ہوگا


پھر رہا ہے جو اک بگولہ سا
خواب اس کا بکھر گیا ہوگا


اس لئے کرچیاں ہیں چاروں طرف
آئنے سے وہ ڈر گیا ہوگا


اب اسے یاد کیا دلائیں ہم
کر کے وعدہ مکر گیا ہوگا