Suhail Ahmed Zaidi

سہیل احمد زیدی

سہیل احمد زیدی کی غزل

    جاں تن کا ساتھ دے نہ تو دل ہی وفا کرے

    جاں تن کا ساتھ دے نہ تو دل ہی وفا کرے کیا رہ گیا ہے جس کا کوئی تذکرہ کرے سب دیکھ سن چکا مگر اب بھی سفر میں ہوں قدموں کو کون راہ گزر سے جدا کرے آشفتگی کا میری پتہ دے مرا مزار اک گرد باد روز وہاں سے اٹھا کرے مدت ہوئی کہ بھول گیا مجھ کو شہر یار چپ لگ گئی مجھے تو وہ بیچارہ کیا کرے ترک ...

    مزید پڑھیے

    سب تماشے ہو چکے اب گھر چلو

    سب تماشے ہو چکے اب گھر چلو دیدہ و دل کھو چکے اب گھر چلو کر چکے سیراب اشکوں سے زمیں درد دانہ بو چکے اب گھر چلو کر چکے ٹوپی میں جگنو کو اسیر سانپ کا من کھو چکے اب گھر چلو خواہشیں تھک ہار کے رخصت ہوئیں بوجھ سارے ڈھو چکے اب گھر چلو منتظر ہوگا کوئی دہلیز پر اس سرا میں سو چکے اب گھر ...

    مزید پڑھیے

    میں کھو گیا تو شہر فن میں دستیاب ہو گیا

    میں کھو گیا تو شہر فن میں دستیاب ہو گیا یہاں جو حرف مٹ گیا وہاں کتاب ہو گیا وہ اک نظر تو کچھ نہ تھی کہ راہ سے بھٹک گئی پلٹ کے اس کو دیکھنا یہی عذاب ہو گیا ہماری فہم نارسا کے واسطے بچا ہی کیا کہ حسن کائنات تو ترا نقاب ہو گیا گناہ میرے یاد کر کے زخم سارے ہنس پڑے لہو لہو بدن مرا کھلا ...

    مزید پڑھیے

    تمنا دل میں گھر کرتی بہت ہے

    تمنا دل میں گھر کرتی بہت ہے ہوا اس دشت میں چلتی بہت ہے جمانا رنگ اس دنیا سے سیکھے کہ ہے تو کچھ نہیں بنتی بہت ہے اسے اک پل کبھی رہنے نہ دینا پھپھوندی قلب پر جمتی بہت ہے کہ ساری عمر انگارے چنے ہیں ہتھیلی ہاتھ کی جلتی بہت ہے سہیلؔ احمد سمجھ کر صرف کرنا ذرا سی زندگی لگتی بہت ہے

    مزید پڑھیے

    کچھ دفن ہے اور سانس لیے جاتا ہے

    کچھ دفن ہے اور سانس لیے جاتا ہے اک سانپ ہے جو قلب میں لہراتا ہے اک گونج ہے جو خون میں چکراتی ہے اک راز ہے پر پیچ ہوا جاتا ہے اک شور ہے جو کچھ نہیں سننے دیتا اک گھر تھا جو بازار ہوا جاتا ہے اک نرم کلی ہے جو کھلی پڑتی ہے اک دشت بلا ہے کہ جلا جاتا ہے اک خوف ہے جو کچھ نہیں کرنے دیتا اک ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کو میسر کوئی منظر ہی نہیں تھا

    آنکھوں کو میسر کوئی منظر ہی نہیں تھا سر میرا گریبان سے باہر ہی نہیں تھا بے فیض ہوائیں تھیں نہ سفاک تھا موسم سچ یہ ہے کہ اس گھر میں کوئی در ہی نہیں تھا سر چین سے رکھا نہ رکے پاؤں کے دل میں اک بات بھی پیوست تھی خنجر ہی نہیں تھا ہم ہار تو جاتے ہی کہ دشمن کے ہمارے سو پیر تھے سو ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    فقیہ شہر سے رشتہ بنائے رہتا ہوں

    فقیہ شہر سے رشتہ بنائے رہتا ہوں شریف گھر کا ہوں عزت بچائے رہتا ہوں مگر یہ راہ تو اس طرح طے نہیں ہوگی میں دونوں پاؤں زمیں پر جمائے رہتا ہوں اکیلے شخص پہ دشمن دلیر ہوتے ہیں تو ساتھ میں کوئی قصہ لگائے رہتا ہوں بنائے کچھ نہیں بنتی زمیں پہ جب مجھ سے تو آسمان کو سر پر اٹھائے رہتا ...

    مزید پڑھیے

    جیسا ہمیں گمان تھا ویسا نہیں رہا

    جیسا ہمیں گمان تھا ویسا نہیں رہا قصہ بھی اختتام پہ قصہ نہیں رہا اک خوف ساتھ ساتھ ہے اونچے مکان کا ایسا نہیں کہ شہر میں سایہ نہیں رہا سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا اسے نیلا سبک خرام وہ دریا نہیں رہا کشتی کے بادبان میں سمٹی رہی ہوا لطف سفر کہ میں تھا اکیلا نہیں رہا ملتی ہے بیچ بیچ ...

    مزید پڑھیے

    پیڑ اونچا ہے مگر زیر زمیں کتنا ہے

    پیڑ اونچا ہے مگر زیر زمیں کتنا ہے لب پہ ہے نام خدا دل میں یقیں کتنا ہے ہم نے تو موند لیں آنکھیں ہی تری دید کے بعد بوالہوس جانتے ہیں کوئی حسیں کتنا ہے دیکھتا ہے وہ مجھے لطف سے گاہے گاہے آنکتا ہے کہ غنی خاک نشیں کتنا ہے ایک تخئیل کے جنگل پہ تصرف تھا پہ اب یہ علاقہ بھی مرے زیر نگیں ...

    مزید پڑھیے

    جب شام بڑھی رات کا چاقو نکل آیا

    جب شام بڑھی رات کا چاقو نکل آیا اس بیچ تری یاد کا پہلو نکل آیا وہ شخص کہ مٹی کا تھا جب ہاتھ لگایا چہرہ نکل آیا کبھی بازو نکل آیا کچھ روز تو دو جسم اور اک جان رہے ہم پھر سلسلۂ حرف من و تو نکل آیا دیکھا کہ ہے بازار یہاں نفع و ضرر کا وہ تیر کہ تھا دل میں ترازو نکل آیا تھا بند چراغ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3