سب تماشے ہو چکے اب گھر چلو

سب تماشے ہو چکے اب گھر چلو
دیدہ و دل کھو چکے اب گھر چلو


کر چکے سیراب اشکوں سے زمیں
درد دانہ بو چکے اب گھر چلو


کر چکے ٹوپی میں جگنو کو اسیر
سانپ کا من کھو چکے اب گھر چلو


خواہشیں تھک ہار کے رخصت ہوئیں
بوجھ سارے ڈھو چکے اب گھر چلو


منتظر ہوگا کوئی دہلیز پر
اس سرا میں سو چکے اب گھر چلو


کاٹنے کو دوڑتا ہے راستہ
ہم سفر سب کھو چکے اب گھر چلو


اک نئی کروٹ بدل ڈالو سہیلؔ
سب ہی پہلو سو چکے اب گھر چلو