میں کھو گیا تو شہر فن میں دستیاب ہو گیا

میں کھو گیا تو شہر فن میں دستیاب ہو گیا
یہاں جو حرف مٹ گیا وہاں کتاب ہو گیا


وہ اک نظر تو کچھ نہ تھی کہ راہ سے بھٹک گئی
پلٹ کے اس کو دیکھنا یہی عذاب ہو گیا


ہماری فہم نارسا کے واسطے بچا ہی کیا
کہ حسن کائنات تو ترا نقاب ہو گیا


گناہ میرے یاد کر کے زخم سارے ہنس پڑے
لہو لہو بدن مرا کھلا گلاب ہو گیا


زیاں و سود مٹ گئے کرم پہ اس کے رہ گئے
ہماری ساری زندگی کا یہ حساب ہو گیا


وجود جل کے رہ گیا شرار لا شعور سے
بھرا پڑا مکان تھا کھنڈر خراب ہو گیا


سہیلؔ شور شہر سے پناہ اب کہیں نہیں
حروف ریزہ ریزہ ہیں سخن خراب ہو گیا