Suhail Ahmed Zaidi

سہیل احمد زیدی

سہیل احمد زیدی کی غزل

    اسی معمول روز و شب میں جی کا دوسرا ہونا

    اسی معمول روز و شب میں جی کا دوسرا ہونا حوادث کے تسلسل میں ذرا سا کچھ نیا ہونا ہمیں تو دل کو بہلانا پڑا حیلے حوالے سے تمہیں کیسا لگا بستی کا بے صوت و صدا ہونا صنم بنتے ہیں پتھر جب الگ ہوتے ہیں ٹکرا کر عجب کار عبث مٹی کا مٹی سے جدا ہونا مگر پھر زندگی بھر بندگی دنیا کی ہے ورنہ کسے ...

    مزید پڑھیے

    سفر کرو تو اک عالم دکھائی دیتا ہے

    سفر کرو تو اک عالم دکھائی دیتا ہے قد اپنا پہلے سے کچھ کم دکھائی دیتا ہے میں خشک شاخ خزاں پہ یونہی نہیں بیٹھا یہاں سے ابر کا پرچم دکھائی دیتا ہے مگر تنا ہوا رہتا ہے کم نصیبوں سے یہ آسماں جو تمہیں خم دکھائی دیتا ہے ہر ایک ہاتھ میں پتھر کہاں سے آئیں گے تمام شہر تو برہم دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    گئے موسموں کو بھلا دیں گے ہم

    گئے موسموں کو بھلا دیں گے ہم کھنڈر کا دیا بھی بجھا دیں گے ہم ابھی صرف چہروں کو پڑھتے رہو کہانی کسی دن سنا دیں گے ہم دبی آگ سنتے ہیں بجھتی نہیں تجھے خاک دل اب اڑا دیں گے ہم زمانے ہمارا سخن پاس رکھ تجھے اور غربت میں کیا دیں گے ہم مٹے حبس جاں کوئی لب تو ہلے اڑی بات کو اب ہوا دیں گے ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں اب بھی عادتاً سراب دیکھتا ہوں میں

    سفر میں اب بھی عادتاً سراب دیکھتا ہوں میں قریب مرگ زندگی کے خواب دیکھتا ہوں میں ہوا نے حرف سادہ میرے ذہن سے اڑا لیا تو اب ہر ایک بات پر کتاب دیکھتا ہوں میں بہار کی سواریوں کے ہم رکاب کیوں رہے خزاں کا برگ و بار پر عتاب دیکھتا ہوں میں کھڑا ہوں نوک خار پر گمان در گمان پر کھلے گا کب ...

    مزید پڑھیے

    میں کیا کروں کوئی سب میرے اختیار میں ہے

    میں کیا کروں کوئی سب میرے اختیار میں ہے سفر میں ہے تو بہت کچھ مگر غبار میں ہے چراغ صبح سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں سنا ہے جب سے کہ اک گل بھی اس شرار میں ہے اڑا کے سر وہ ہتھیلی پہ رکھ بھی دیتا ہے بھلی یہ بات تو مانو کہ شہریار میں ہے کلی کھلے تو گریبان یاد آتا ہے یہ دکھ خزاں میں کہاں ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے

    دنیا کے کچھ نہ کچھ تو طلب گار سے رہے ہم اپنی ہی نظر میں خطا کار سے رہے اک مرحلہ تھا ختم ہوا دشت خواب کا پھر عمر بھر جہاں رہے بیزار سے رہے جرأت کسی نے وادئ وحشت کی پھر نہ کی ہم خستہ حال آہنی دیوار سے رہے اک عکس ہے جو ساتھ نہیں چھوڑتا کبھی ہم تا حیات آئینہ بردار سے رہے ہر صبح اپنے ...

    مزید پڑھیے

    امکان کھلے در کا ہر آن بہت رکھا

    امکان کھلے در کا ہر آن بہت رکھا اس گنبد بے در نے حیران بہت رکھا آباد کیا دل کو ہنگامۂ حسرت سے صحرائے تگ و دو کو ویران بہت رکھا اک موج فنا تھی جو روکے نہ رکی آخر دیوار بہت کھینچی دربان بہت رکھا تاروں میں چمک رکھی پھولوں میں مہک رکھی اور خاک کے پتلے میں امکان بہت رکھا جلتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو

    خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو وقت اب کم ہے بہت یاد خدا کر ڈالو ایک صورت ہے یہی پاؤں جمے رہنے کی ہاتھ اٹھاؤ دل ثابت کی دعا کر ڈالو حرف انکار بھی اس در سے بڑی نعمت ہے یہ فقیروں کے ہیں اسرار صدا کر ڈالو اور دنیا میں بہت کچھ ہے گلستاں کی طرح سیر تم بھی کبھی ہمراہ صبا کر ...

    مزید پڑھیے

    نواح جاں میں کہیں ابتری سی لگتی ہے

    نواح جاں میں کہیں ابتری سی لگتی ہے سکون ہو تو عجب بیکلی سی لگتی ہے اک آرزو مجھے کیا کیا فریب دیتی ہے بجھے چراغ میں بھی روشنی سی لگتی ہے گئی رتوں کے تصرف میں آ گیا شاید اب آنسوؤں میں لہو کی کمی سی لگتی ہے اسی کو یاد دلاتا ہے بار بار دماغ وہ ایک بات جو دل میں انی سی لگتی ہے کہ روز ...

    مزید پڑھیے

    اجڑے دل و دماغ کو آباد کر سکوں

    اجڑے دل و دماغ کو آباد کر سکوں ایسا تو کچھ کیا نہیں جو یاد کر سکوں آخر کو آدمی ہوں کبھی چاہتا ہے دل خود کو ترے خیال سے آزاد کر سکوں کھولے زبان وہ جو اسے جانتا نہ ہو میرا تو منہ نہیں ہے کہ فریاد کر سکوں اک عمر کٹ گئی مگر اب تک ہے جستجو دن کاٹنے کا فن کوئی ایجاد کر سکوں اپنے ہی غم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3