جیسا ہمیں گمان تھا ویسا نہیں رہا
جیسا ہمیں گمان تھا ویسا نہیں رہا
قصہ بھی اختتام پہ قصہ نہیں رہا
اک خوف ساتھ ساتھ ہے اونچے مکان کا
ایسا نہیں کہ شہر میں سایہ نہیں رہا
سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا اسے
نیلا سبک خرام وہ دریا نہیں رہا
کشتی کے بادبان میں سمٹی رہی ہوا
لطف سفر کہ میں تھا اکیلا نہیں رہا
ملتی ہے بیچ بیچ میں شہروں کی روشنی
صحرا کا گشت کھیل تماشا نہیں رہا
کہتے نہیں ہو شعر بزرگوں کی طرز پر
تم کو سہیلؔ خوف خدا کا نہیں رہا