سہیل آزاد کی غزل

    بے کراں وسعتوں میں تنہا ہوں

    بے کراں وسعتوں میں تنہا ہوں خاک پر صورتیں بناتا ہوں بزم میں سوئے اتفاق کہ میں اس کے جانے کے بعد آتا ہوں پیاس ہے میری زندگی کا پتا میں بھی اے رہ گزار دریا ہوں اور کچھ پل مجھے گوارہ کر ڈوبتی شام کا تماشہ ہوں میرے سورج تجھے خبر بھی نہیں میں تری آس میں ہی زندہ ہوں ایک دفتر ہے میری ...

    مزید پڑھیے

    اک سکوت بے کراں شعلہ بیانی سے الگ

    اک سکوت بے کراں شعلہ بیانی سے الگ ایک دنیا ہے مرے شہر معانی سے الگ موج خود ساکت کھڑی تھی یا کہ تھا یہ دام آب کیا تھا وہ ٹھہراؤ سا پیہم روانی سے الگ وہ بیاں آہنگ جس کا دل کو چھلنی کر گیا گرم گفتاری سے ہٹ کر بے زبانی سے الگ ساری خوشیاں جھوٹ ہیں ہر مسکراہٹ ہے فریب آؤ اک دنیا بسائیں ...

    مزید پڑھیے

    میں کہاں کاروان شوق کہاں

    میں کہاں کاروان شوق کہاں اب وہ تب سا جہان شوق کہاں کچھ تو دل بھی ہے ذوق سے خالی اور کچھ وہ زبان شوق کہاں کب رہی ہے متاع دل بھی ساتھ اور سوداگران شوق کہاں عشق بھی بے بسی سا لگتا ہے دل بھی اب ہم زبان شوق کہاں بے حسی پر ہے زندگی آزادؔ یار وہ نکتہ دان شوق کہاں

    مزید پڑھیے

    کیا ہوا کیوں یہ سہانی بستیاں بیمار ہیں

    کیا ہوا کیوں یہ سہانی بستیاں بیمار ہیں کیوں یہ دل کے شہر یہ آبادیاں بیمار ہیں ایک مدت سے چمن میں جانے پر بستہ ہیں کیوں گل ہی کچھ بے کیف ہیں یا تتلیاں بیمار ہیں یا کثافت ہے ہوائے تازہ کی تاثیر میں یا ہمارے گھر کے در اور کھڑکیاں بیمار ہیں ٹھہر اے شور بہاراں تھم ذرا ہنگام شوق ایک ...

    مزید پڑھیے

    احوال پریشاں پر کچھ تبصرہ اس کا بھی

    احوال پریشاں پر کچھ تبصرہ اس کا بھی حالات کے سرہانے کچھ دیر وہ رویا بھی تجدید تعلق پر کیا حرف کہ جب اس نے رشتوں کی عبارت کو لکھ لکھ کے مٹایا بھی صدیوں کی مسافت تھی اب قصۂ ماضی ہے امید کے دریا بھی احساس کے صحرا بھی کچھ دیر کو دم لینے ٹھہرے تھے یہاں ساتھی پیروں سے لپٹنے کو تیار ...

    مزید پڑھیے

    دیر میں سو کر اٹھنے والے

    دیر میں سو کر اٹھنے والے پڑے ہیں بستر اٹھنے والے چائے کی برکت سے خالی ہیں دیر میں اکثر اٹھنے والے شور نہیں اس چپ کی تلافی دل میں بونڈر اٹھنے والے ہائے وہ دیوانوں کے سر ہیں آہ وہ پتھر اٹھنے والے ختم ہوئے خوابوں کے تماشے آنکھ سے منظر اٹھنے والے چہروں کی بیمار لطافت ہاتھ میں ...

    مزید پڑھیے

    یوں نہیں کوئی دعا باقی نہیں

    یوں نہیں کوئی دعا باقی نہیں میرے حصے کی ہوا باقی نہیں تیرے ہونے کے تصور سے بھی دور یعنی تیرا آسرا باقی نہیں آنکھ ہے وابستۂ خواب اجل یارو کوئی رتجگا باقی نہیں سن رہا ہوں دور آواز جرس اور میرا قافلہ باقی نہیں عکس کی بے چارگی کو دیکھ کر میں یہ سمجھا آئنہ باقی نہیں

    مزید پڑھیے

    یادوں کے انبار لگے تھے

    یادوں کے انبار لگے تھے خالی پیکٹ بھرے پڑے تھے جانے کون سا دکھ حاوی تھا جانے کیوں اتنا ہنستے تھے اس بیزار گلی سے ہو کر ہم اکثر آتے جاتے تھے خوابوں کے بوسیدہ منظر آنکھوں آنکھوں جھانک رہے تھے آوازوں کے گونگے لشکر رات کا سینہ چیر رہے تھے گل دانوں کو یاد نہیں اب پہلے کون سے پھول ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دن ہوائے بے سر و ساماں کے ساتھ بھی

    کچھ دن ہوائے بے سر و ساماں کے ساتھ بھی سانسوں کا کارواں لیے طوفاں کے ساتھ بھی آرائش وصال پہ کیوں اتنا شاد ہوا یہ جھوٹ تو ہے شورش ہجراں کے ساتھ بھی دل ہے تو دل کے ساتھ ہیں سب کاروبار درد جی ہی تو لیں گے حسرت ویراں کے ساتھ بھی ہم وہ مسافران ازل ہیں کہ ہر گھڑی دریا کے ساتھ بھی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دن اور باد فنا ہم یہاں

    کوئی دن اور باد فنا ہم یہاں کاٹتے جیسے کوئی سزا ہم یہاں سانس کی ڈور کمزور ہوتی ہوئی تو کہاں ہے بتا اے ہوا ہم یہاں اپنی پہچان خود سے چھپائے ہوئے پوچھتے پھر رہے ہیں پتا ہم یہاں رہ گئے خواب اور ان کی ہلکی کسک دیکھتے رہ گئے رتجگا ہم یہاں عشق نے بارہا ہم کو رسوا کیا دل کے ہاتھوں لٹے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2