Siraj Lakhnavi

سراج لکھنوی

سراج لکھنوی کی غزل

    دنیا کا نہ عقبیٰ کا کوئی غم نہیں سہتے

    دنیا کا نہ عقبیٰ کا کوئی غم نہیں سہتے جو آپ کے ہو جاتے ہیں اپنے نہیں رہتے رو لے ابھی کچھ اور غنیمت ہے یہ رونا بن جاتے ہیں وہ زہر جو آنسو نہیں بہتے اب کوئی نئی چال چل اے گردش دنیا ہم روز کے فتنے کو قیامت نہیں کہتے سب پوچھو گزرتی ہے جو ہم پر وہ نہ پوچھو دل روتا ہے اور آنکھ سے آنسو ...

    مزید پڑھیے

    قسمت سے لڑتی ہیں نگاہیں

    قسمت سے لڑتی ہیں نگاہیں تیرے ہوتے کس کو چاہیں الٹی دیکھیں عشق کی راہیں ہنسنا پڑے جب رونا چاہیں عشرت ماضی کو روتا ہوں غم کے گلے میں ڈال کے باہیں نازک نازک جذبے دل کے ہلکی ہلکی ٹھنڈی آہیں شیشۂ دل کے ہر ٹکڑے میں ایک اک صورت کس کو چاہیں میرے مقدر کے سر نامے جلتے آنسو ٹھنڈی ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ یار یوں ہی اور چند پیمانے

    نگاہ یار یوں ہی اور چند پیمانے اب اپنے ہوش میں آنے نہ پائیں دیوانے محبت اصل میں کیا چیز ہے خدا جانے دہن میں جتنی زبانیں ہیں اتنے افسانے جو اشک سرخ ہے نامہ نگار ہے دل کا سکوت شب میں لکھے جا رہے ہیں افسانے جہان ہوش میں تا حشر تبصرے ہوں گے زباں میں اپنی یہ کیا کہہ رہے تھے ...

    مزید پڑھیے

    مٹا سا حرف ہوں بگڑی ہوئی سی بات ہوں میں

    مٹا سا حرف ہوں بگڑی ہوئی سی بات ہوں میں جبین وقت پہ اک نقش بے ثبات ہوں میں بتا بسیط زمانے ہے کیا یہی انصاف جو ہے عدوئے نمود سحر وہ رات ہوں میں گمان یہ تھا کہ ہوں مرکز ہجوم نگاہ یقین یہ ہے کہ محروم التفات ہوں میں ہے کس گنہ کی سیاہی مری غلط فہمی میں جانتا تھا کہ روح تجلیات ہوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ وہ آزمائش سخت ہے کہ بڑے بڑے بھی نکل گئے

    یہ وہ آزمائش سخت ہے کہ بڑے بڑے بھی نکل گئے یہ انہیں پتنگوں کا ظرف ہے کہ پرائی آگ میں جل گئے تری آستین کی کہکشاں جو نظر پڑی تو مچل گئے جو تری خوشی کا نچوڑ تھے وہی اشک تاروں میں ڈھل گئے ملے سرد آہوں میں اشک غم تو شرار و برق میں ڈھل گئے یہ نہ جانے کیسے چراغ تھے کہ ہوا کے رخ پہ بھی جل ...

    مزید پڑھیے

    ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے

    ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے ہیں چاند جبینوں پر اور ذہن میں بت خانے کچھ عقل کے متوالے کچھ عشق کے دیوانے پرواز کہاں تک ہے کس کی یہ خدا جانے کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے اب رنگ کے نسلوں کے بت ٹوٹ چکے ساقی اب کیوں دیئے جاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ملا دلا سہی اک خشک ہار باقی ہے

    ملا دلا سہی اک خشک ہار باقی ہے ابھی بہار شکست بہار باقی ہے نظر سنوار چکی کتنے آئنہ خانے اسی طرح ہوس دید یار باقی ہے بچھونا کانٹوں کا ہے پھر بھی آئی جاتی ہے نیند ابھی تصور زانوئے یار باقی ہے شکست عہد کے کیوں ہوں نہ سلسلے قائم اک آسرا پس ہر اعتبار باقی ہے قفس میں فرصت فکر چمن ...

    مزید پڑھیے

    تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم

    تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم کہاں کھو دیا تو نے کیا ہو گئے ہم محبت میں اک سانحا ہو گئے ہم ابھی تھے ابھی جانے کیا ہو گئے ہم محبت تو خود حسن ہے حسن کیسا یہ کس وہم میں مبتلا ہو گئے ہم یہ کیا کر دیا انقلاب محبت ذرا آئینہ لا یہ کیا ہو گئے ہم حقیقت میں بندہ بھی بننا نہ آیا سمجھتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    عجب صورت سے دل گھبرا رہا ہے

    عجب صورت سے دل گھبرا رہا ہے ہنسی کے ساتھ رونا آ رہا ہے مجھے دل سے بھلایا جا رہا ہے پسینے پر پسینا آ رہا ہے مروت شرط ہے اے یاد جاناں تمناؤں کا جی گھبرا رہا ہے مری نیندیں تو آنکھوں سے اڑا دیں مگر خود وقت سویا جا رہا ہے ادب کر اے غم دوراں ادب کر کسی کی یاد میں فرق آ رہا ہے یہ آدھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ جبر زندگی نہ اٹھائیں تو کیا کریں

    یہ جبر زندگی نہ اٹھائیں تو کیا کریں تڑپیں مگر تڑپنے نہ پائیں تو کیا کریں اب اپنی محفلوں سے بھی آتی ہے بوئے غیر جائیں تو کیا کریں جو نہ جائیں تو کیا کریں قسمت میں اپنی صبح کی اب روشنی کہاں اشکوں کے بھی دئیے نہ جلائیں تو کیا کریں کتنی ہی راتیں جاگ کے آنکھوں میں کاٹ دیں بیداریاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4