امانت سونپ کر بنیاد بھی حشر آفریں رکھ دی
امانت سونپ کر بنیاد بھی حشر آفریں رکھ دی جہاں سے ایک مٹھی خاک اٹھائی تھی وہیں رکھ دی نہ آیا آہ آنسو پونچھنا بھی غم کے ماروں کو نچوڑی بھی نہیں آنکھوں پہ یوں ہی آستیں رکھ دی دھوئیں کی چادریں کیسی وہ شعلے اب کہاں ہمدم ردائے صبر میں تہ کر کے آہ آتشیں رکھ دی نماز اہل الفت بے نیاز ...