یہ جبر زندگی نہ اٹھائیں تو کیا کریں
یہ جبر زندگی نہ اٹھائیں تو کیا کریں
تڑپیں مگر تڑپنے نہ پائیں تو کیا کریں
اب اپنی محفلوں سے بھی آتی ہے بوئے غیر
جائیں تو کیا کریں جو نہ جائیں تو کیا کریں
قسمت میں اپنی صبح کی اب روشنی کہاں
اشکوں کے بھی دئیے نہ جلائیں تو کیا کریں
کتنی ہی راتیں جاگ کے آنکھوں میں کاٹ دیں
بیداریاں بھی خواب دکھائیں تو کیا کریں
وہ رنگ و بو کے قافلے رستے ہوں جن کے بند
دیوار باغ پھاند نہ پائیں تو کیا کریں
کانٹوں کے دن بھی پھر گئے راس آ گئی بہار
چھینی گئیں گلوں کی قبائیں تو کیا کریں
گرتا ہے ہر پلک کے جھپکنے پہ اک حجاب
آنکھوں کو انتظار سکھائیں تو کیا کریں
ہر روشنی سراجؔ چراغ حرم نہیں
اس سطح پر نگاہ کو لائیں تو کیا کریں