نگاہ یار یوں ہی اور چند پیمانے

نگاہ یار یوں ہی اور چند پیمانے
اب اپنے ہوش میں آنے نہ پائیں دیوانے


محبت اصل میں کیا چیز ہے خدا جانے
دہن میں جتنی زبانیں ہیں اتنے افسانے


جو اشک سرخ ہے نامہ نگار ہے دل کا
سکوت شب میں لکھے جا رہے ہیں افسانے


جہان ہوش میں تا حشر تبصرے ہوں گے
زباں میں اپنی یہ کیا کہہ رہے تھے دیوانے


شگون اس نگہ مے فروش سے لے کر
ہم آپ وضع کریں گے ہزار میخانے


نہ پوچھو آہ محبت کی رخنہ اندازی
خدا گواہ ہے اپنے ہوئے ہیں بیگانے


ہر اشک سرخ ہے دامان شب میں آگ کا پھول
بغیر شمع کے بھی جل رہے ہیں پروانے


قدم قدم پہ صدائے شکست توبہ ہے
نثار لغزش ساقی ہزار پیمانے


فریب حسن سماعت تری دہائی ہے
حقیقتوں کی جگہ چھینتے ہیں افسانے


بلند و پست نظر فرق ظاہری ہے سراجؔ
بنے تو ہیں انہیں آبادیوں سے ویرانے