Siraj Lakhnavi

سراج لکھنوی

سراج لکھنوی کی غزل

    بے سمجھے بوجھے محبت کی اک کافر نے ایمان لیا

    بے سمجھے بوجھے محبت کی اک کافر نے ایمان لیا اب آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں کیوں دل کا کہنا مان لیا ہم فکر میں تھے چھپ کر دیکھیں ان جلووں نے پہچان لیا جب تک یہ نظر اٹھے اٹھے ظالم نے پردہ تان لیا کیوں حسن گراں مایہ یہ کیا تیرے جلوے اتنے ارزاں ایک ایک خدا اپنا اپنا جس نے جسے چاہا مان ...

    مزید پڑھیے

    خیال دوست نہ میں یاد یار میں گم ہوں

    خیال دوست نہ میں یاد یار میں گم ہوں خود اپنی فکر و نظر کی بہار میں گم ہوں خوشی سے جبر زدہ اختیار میں گم ہوں عجیب دل کشیٔ ناگوار میں گم ہوں خود اپنی یاد فراموش کار میں گم ہوں بہانہ یہ ہے ترے انتظار میں گم ہوں نہ محتسب کی خوشامد نہ میکدے کا طواف خودی میں مست ہوں اپنی بہار میں گم ...

    مزید پڑھیے

    جلتی رہنا شمع حیات

    جلتی رہنا شمع حیات پھر نہ ملے گی ایسی رات کہہ تو گئی وہ نیچی نگاہ راز ہی رکھنا راز حیات ہم کچھ سمجھے وہ کچھ اور خاموشی میں بڑھ گئی بات کس کو سنائیں پوچھے کون آہ نیم شبی کی بات روح کے منکر جسم پرست سہل نہیں عرفان حیات اف یہ دست طلب اور ہم سب ہے وقت پڑے کی بات دامن سے اب منہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اب ہوائے چمن نہیں کہ قفس میں گونہ قرار ہے

    مجھے اب ہوائے چمن نہیں کہ قفس میں گونہ قرار ہے یہ تو پچھلے سال جو آئی تھی وہی چار دن کی بہار ہے ہیں جگر میں داغ لہو ہے دل ہیں تر آنکھیں سینہ فگار ہے یہی رنگ و بو یہی فصل گل یہی بے کسوں کی بہار ہے کوئی حسب حال خطاب ہو مرے دل کو دل نہ کہا کرو اسے کیوں بہار کا نام دو جو خزاں نصیب بہار ...

    مزید پڑھیے

    اچھا قصاص لینا پھر آہ آتشیں سے

    اچھا قصاص لینا پھر آہ آتشیں سے آؤ ادھر پسینہ تو پوچھ دوں جبیں سے میرا نیاز پھر بھی ٹھکرایا جا رہا ہے نکلی ہے رسم سجدہ گو میری ہی جبیں سے مجبوریٔ محبت انصاف چاہتی ہے شکوہ بھی ہے تمہیں سے فریاد بھی تمہیں سے ہاں ہم بھی جانتے ہیں مدت سے ان بتوں کو کعبے کے رہنے والے نکلے ہیں آستیں ...

    مزید پڑھیے

    اب اتنی ارزاں نہیں بہاریں وہ عالم رنگ و بو کہاں ہے

    اب اتنی ارزاں نہیں بہاریں وہ عالم رنگ و بو کہاں ہے قفس میں بیٹھے رہو اسیرو ابھی نشیمن بہت گراں ہے گزر رہا ہے جو دل پہ عالم عیاں نہ ہونے پہ بھی عیاں ہے ابھی فقط قصد ہے فغاں کا ابھی سے چہرہ دھواں دھواں ہے کہیں قیامت نہ اٹھ کھڑی ہو زمین ملتی ہے آسماں سے بڑی نزاکت کی یہ گھڑی ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں

    ہر لغزش حیات پر اترا رہا ہوں میں اور بے گناہیوں کی قسم کھا رہا ہوں میں ناز آفریں مرا بھی خرام نیاز دیکھ محشر میں مسکراتا ہوا آ رہا ہوں میں ہر اشک‌ دل گداز مے نو کشیدہ ہے ساغر سے شعلہ بن کے اڑا جا رہا ہوں میں ضرب‌ المثل ہیں اب مری مشکل پسندیاں سلجھا کے ہر گرہ کو پھر الجھا رہا ...

    مزید پڑھیے

    لیا جنت میں بھی دوزخ کا سہارا ہم نے

    لیا جنت میں بھی دوزخ کا سہارا ہم نے آشیاں برق کے تنکوں سے سنوارا ہم نے حسن آئینۂ غیرت کو سنوارا ہم نے نہ لیا عشق میں اپنا بھی سہارا ہم نے نقش فانی ہی رہا رنگ بقا چڑھ نہ سکا عمر بھر عالم امکاں کو سنوارا ہم نے ہر نفس مرثیہ تھا ساعت‌ بیداری کا لاکھ سوئی ہوئی قسمت کو پکارا ہم ...

    مزید پڑھیے

    مدد اے خیال ماضی ذرا آئنہ اٹھانا (ردیف .. ہ)

    مدد اے خیال ماضی ذرا آئنہ اٹھانا میں بدل گیا ہوں خود ہی کہ بدل گیا زمانا مرے خالق گلستاں یہ سماں نہ پھر دکھانا کہ خود اپنی روشنی میں نظر آئے آشیانا یہ ہے جدت تخیل تو بھلا کہاں ٹھکانا ملیں بجلیوں کے تنکے تو بناؤں آشیانا یہ قفس قفس نہ رہتا نظر آتا آشیانا مرے بال و پر سے پہلے مرے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں

    آنکھوں میں آج آنسو پھر ڈبڈبا رہے ہیں ہم کل کی آستینیں اب تک سکھا رہے ہیں احساں جتا جتا کر نشتر لگا رہے ہیں میری کہانیاں سب مجھ کو سنا رہے ہیں آنسو غم و خوشی کے جلوے دکھا رہے ہیں کچھ جگمگا رہے ہیں کچھ جھلملا رہے ہیں ساقی کے روٹھنے پر رندوں میں برہمی ہے ساغر سے آج ساغر ٹکرائے جا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4