لیا جنت میں بھی دوزخ کا سہارا ہم نے

لیا جنت میں بھی دوزخ کا سہارا ہم نے
آشیاں برق کے تنکوں سے سنوارا ہم نے


حسن آئینۂ غیرت کو سنوارا ہم نے
نہ لیا عشق میں اپنا بھی سہارا ہم نے


نقش فانی ہی رہا رنگ بقا چڑھ نہ سکا
عمر بھر عالم امکاں کو سنوارا ہم نے


ہر نفس مرثیہ تھا ساعت‌ بیداری کا
لاکھ سوئی ہوئی قسمت کو پکارا ہم نے


ہائے اے مصلحت وقت دہائی تیری
کر لی نا اہل کی تنقید گوارا ہم نے


پھر بھی پیشانی طوفاں پہ شکن باقی ہے
ڈوبتے وقت بھی دیکھا نہ کنارا ہم نے


دھڑکنیں دل کی بھی شاہد ہیں خدا بھی ہے گواہ
ہم پہ جب وقت پڑا تم کو پکارا ہم نے


سایۂ گل میں کہاں فطرت آزاد کو چین
ہر تڑپتی ہوئی بجلی کو پکارا ہم نے