مدد اے خیال ماضی ذرا آئنہ اٹھانا (ردیف .. ہ)

مدد اے خیال ماضی ذرا آئنہ اٹھانا
میں بدل گیا ہوں خود ہی کہ بدل گیا زمانا


مرے خالق گلستاں یہ سماں نہ پھر دکھانا
کہ خود اپنی روشنی میں نظر آئے آشیانا


یہ ہے جدت تخیل تو بھلا کہاں ٹھکانا
ملیں بجلیوں کے تنکے تو بناؤں آشیانا


یہ قفس قفس نہ رہتا نظر آتا آشیانا
مرے بال و پر سے پہلے مرے دل کا ٹوٹ جانا


یہ نہ پوچھ پھول برسے کہ گری دلوں پہ بجلی
ذرا دیکھ آئنہ میں کبھی اپنا مسکرانا


مرا ایک ایک آنسو غم فکر دو جہاں ہے
کبھی خشک کرنا دامن کبھی آستیں سکھانا


رگ و پے میں برق دوڑے یہی لطف زندگی ہے
مرے مسکرانے والے یوں ہی مسکرائے جانا


مرے شام غم کی زینت مرے آنسوؤں کے تارو
تمہیں کام کیا سحر سے کہیں تم نہ ڈوب جانا


کہوں کیا سراجؔ تم سے جو گزر رہی ہے دل پر
یہ قفس کی زندگی اور یہ بہار کا زمانہ