خیال دوست نہ میں یاد یار میں گم ہوں
خیال دوست نہ میں یاد یار میں گم ہوں
خود اپنی فکر و نظر کی بہار میں گم ہوں
خوشی سے جبر زدہ اختیار میں گم ہوں
عجیب دل کشیٔ ناگوار میں گم ہوں
خود اپنی یاد فراموش کار میں گم ہوں
بہانہ یہ ہے ترے انتظار میں گم ہوں
نہ محتسب کی خوشامد نہ میکدے کا طواف
خودی میں مست ہوں اپنی بہار میں گم ہوں
ترا جمال بھی دیکھوں گا وقت آنے دے
ابھی تو اپنے ہی آئینہ زار میں گم ہوں
تو ہی پکار مرا نام لے کے اے غم عشق
پڑا ہے وقت غم روزگار میں گم ہوں
نہ شام کی ہے خبر اور نہ صبح کی پہچان
سراجؔ گردش لیل و نہار میں گم ہوں