Sidra Afzal

سدریٰ افضل

سدریٰ افضل کی نظم

    بنجر خیالی کے دن

    روح بے چین ہے چشم پر آب سے بارشوں کی توقع بھی بیکار ہے لفظ گر ساعتیں شاعری کے ترنم سے سرشار تو ہیں مگر نظم کے سات سر میری کہنہ سماعت سے ٹکرا کے واپس کہیں جا چکے ہیں مری ذات خاموشیوں کے سفر پر روانہ ہے اور میں پرانے گھروں کے جھروکوں سے تعبیر کے سلسلے جوڑتی پھر رہی ہوں سبھی کوششیں ...

    مزید پڑھیے

    کھوج

    میں اپنا نام اور پیدائش کھوج رہی ہوں ایک ایسی خوردبین سے جس میں پچیسویں صدی کی آنکھیں لگی ہوئی ہیں وہ آنکھیں جن کی پتلی سفید اور سکلیرا سیاہ ہے وہ آنکھیں جو دور تک دیکھ سکتی ہیں اور آٹھواں رنگ پہچان سکتی ہیں جنہیں بائسویں صدی نے دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر یہ المیہ جس کی ...

    مزید پڑھیے

    رد تشکیل

    خدائی میرے باطن میں اترتی سرد شاموں کو کسی تعبیر کے مرقد پہ اک دن چھوڑ آئے گی مرے اشعار کی تکرار سے عاجز میرے الفاظ کے ٹکڑوں سے اپنی آہنی دیوار اور شجرے سجائے گی خدائی مجھ سے مجھ کو چھین کر اپنا بنانے کی تمنا میں مرے ہاتھوں سے میری انگلیاں کاٹے گی محنت سے اور اس پر فکر کا کلمہ ...

    مزید پڑھیے

    گل داؤدی

    الماری میں پڑے برتنوں کے ساتھ ایک عطیہ دان جو صدقے کے سکوں سے بھرا پڑا ہے آج اس میں چند سکے اور ڈال دئے جائیں گے تاکہ بلائیں دور رہیں لیکن بلاؤں کو دور رکھنا اتنا آسان کیسے ہے معلوم نہیں کیا اندر کی بلاؤں سے چھٹکارا پانے کی کوئی ایسی آسان تدبیر بھی موجود ہے شاید گوگل کرنا پڑے مگر ...

    مزید پڑھیے

    اداکار

    مرے راز داں میری آنکھوں میں دیکھو بتاؤ مجھے کیا کہیں خوف ہے کیا کہیں کوئی خواہش مچلتی ہوئی پا برہنہ ملی کیا مری آنکھ کے بانکپن میں نقاہت تو ابھری نہیں محبت کا دھاگا جو الجھا ہوا ہے کہیں اس کی سرخی تو آنکھوں میں دکھتی نہیں مرے راز داں میری باتوں کو سوچو بتاؤ مجھے کیا کہیں ان میں ...

    مزید پڑھیے

    خدا زمین پر کب آئے گا

    کائنات جس کی باگیں کسی حادثے کے ہاتھ میں دے کر خدا وند کریم عبادتیں بٹور رہا ہے کیا اسے صرف یہی غرض ہے کہ وہ پہچانا جائے یا اس کے ہونے کی کچھ اور بھی حقیقت ہے اس ملک میں جہاں بظاہر آزادی ہے غلامی کے طوق پہنے ہوئے ایڑیاں رگڑتی دل مسوستی جاں بہ لب زندگی عمر کا طویل سفر طے کرنے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    صادقین

    تم ٹھٹھرتی گزرتی ہوئی شام کی مد بھری روشنی سے چرائے ہوئے چار پل کی کتھا سن سکو تو سنو صادقین اک گلی میں کھڑا تھا نسق و تعلیق کی الجھنوں میں گھری زندگی اک گلی جس کے چاروں طرف حسرتوں کا خط نسخ فیثا غورث کے مسئلوں میں الجھا ہوا لا سعی پڑھ رہا تھا صادقینی فراست ریاضت کی منزل پہ فائز ...

    مزید پڑھیے

    نا معلوم کا ضرر

    میں نہیں جانتی کہ مجھے کیا ہوا ہے مجھے ایسا کچھ بھی میرے بارے بتانے سے منع کیا گیا ہے شاید مگر میں تکلیف میں ہوں ایک انجانی تکلیف نا چاہے جانے کی تکلیف میں کسی کی زندگی کا محور و مرکز نہیں کیوں شاید یہ کیوں اور اس سے پہلے کا جملہ فقط میرا وہم ہو یہی سوچ کر خود کو تسلی دینا بھی کس ...

    مزید پڑھیے

    ایک نڈھال نظم

    تالیوں کی گونج زائل ہو چکی حال خالی ہو چکا داد کے بکسے الٹ کر چل دئے لوگ میری چیختی نظموں کی بولی دے چکے میں جمع تفریق کی مد میں بنا ترتیب سانسوں کی گھٹن سے چور ہوں کاش دھرتی آسماں کی وسعتوں کو جانتی خواب میں پنہاں حقیقت کو حقیقت مانتی ہاں مگر ان داستانوں کا سکندر کون ہے کون ...

    مزید پڑھیے