ایک نڈھال نظم

تالیوں کی گونج
زائل ہو چکی
حال خالی ہو چکا
داد کے بکسے الٹ کر چل دئے
لوگ میری چیختی نظموں کی
بولی دے چکے
میں جمع تفریق کی مد میں
بنا ترتیب سانسوں کی
گھٹن سے چور ہوں
کاش دھرتی آسماں کی
وسعتوں کو جانتی
خواب میں پنہاں
حقیقت کو حقیقت مانتی
ہاں مگر
ان داستانوں کا سکندر کون ہے
کون ہے
افتادگی کی ساعتوں کا ہم نوا
کون ہے
تفہیم کی تشنہ لبی کا راز داں
کون ہے
کوئی نہیں
وہ جو آئے تھے
وہ آ کر جا چکے