رد تشکیل

خدائی میرے باطن میں
اترتی سرد شاموں کو
کسی تعبیر کے مرقد پہ
اک دن چھوڑ آئے گی


مرے اشعار کی تکرار سے عاجز
میرے الفاظ کے ٹکڑوں سے اپنی
آہنی دیوار اور شجرے سجائے گی
خدائی
مجھ سے مجھ کو چھین کر
اپنا بنانے کی تمنا میں
مرے ہاتھوں سے میری انگلیاں
کاٹے گی محنت سے
اور اس پر فکر کا کلمہ سنائے گی


خدائی جانتی ہے
گردنوں پر وار کرنا جرم ہے
سو یہ
مری آنکھوں میں
اپنی پتلیاں بھرنے کی کوشش میں
ادھورے تجربوں کو آزمائے گی


مرے پیروں تلے سے
چھین لے گی فرش میرا اور
مجھے قالین پر چلنا سکھائے گی


خدائی میرے کاندھوں پر
سفر تبریک کا طے کرتی جائے گی
تصور کے مکانوں میں
مرے کردار کا اک بت بنائے گی
کھلی آنکھوں سماعت سے لدے کانوں
فصاحت سے بھرے ہونٹوں کا
اک خاموش بت
جسے چھونا منع ہوگا