خدا زمین پر کب آئے گا

کائنات جس کی باگیں
کسی حادثے کے ہاتھ میں دے کر
خدا وند کریم عبادتیں بٹور رہا ہے
کیا اسے صرف یہی غرض ہے
کہ وہ پہچانا جائے یا
اس کے ہونے کی
کچھ اور بھی حقیقت ہے
اس ملک میں جہاں بظاہر آزادی ہے
غلامی کے طوق پہنے ہوئے ایڑیاں رگڑتی دل مسوستی جاں بہ لب زندگی
عمر کا طویل سفر طے کرنے کہاں جائے گی
کیا کوئی اور زندگی بخش سیارہ دریافت ہو چکا ہے
کیا کوئی اور زمین ڈھونڈ لی گئی ہے
اتنی بڑی دنیا میں کیا چھوٹے پن کو دفن کرنے کی کوئی جگہ باقی نہیں
کیا سمندروں نے اقرار کر لیا ہے کہ وہ مردار نگلیں گے
اور کشتیوں کو بندرگاہوں کے کناروں پر پہنچا کر قزاقوں کے حوالے کر دیں گے
آنکھ جب پتھر برسانے لگے گی تو آنسو بھر خجالت
ماتھے سے نمودار ہو کر اپنے ہونے کا احساس دلائیں گے
اس آزاد ملک میں جہاں غلامی کے طوق پہنے
ایڑیاں رگڑتی دل مسوستی جاں بہ لب زندگی انتظار میں ہے
کہ عبادتیں بٹورتا خدا کائنات کی سیڑھیوں تک تو آئے