Siddique Mujibi

صدیق مجیبی

صدیق مجیبی کی غزل

    دل ہی گرداب تمنا ہے یہیں ڈوبتے ہیں

    دل ہی گرداب تمنا ہے یہیں ڈوبتے ہیں اپنے ہی غم میں ترے خاک نشیں ڈوبتے ہیں دل فقیرانہ تھا مہر و مہ و انجم نہ بنے خس کی مانند رہے ہم کہ نہیں ڈوبتے ہیں ہم اگر ڈوبے تو کیا کون سے ایسے ہم تھے شہر کے شہر جہاں زیر زمیں ڈوبتے ہیں اپنی روپوشی تہ خاک مقدر ہے تو کیا ڈوبنے کو تو ستارے بھی ...

    مزید پڑھیے

    زبان خلق کو چپ آستیں کو تر پا کر

    زبان خلق کو چپ آستیں کو تر پا کر میں آب دیدہ ہوا خوں کو در بدر پا کر یہ کس کے قرب کی خوشبو بسی ہے سانسوں میں یہ مجھ سے کون ملا مجھ کو بے خبر پا کر سفر کی شرط کبھی اس قدر کڑی کب تھی تھکن کچھ اور بڑھی سایۂ شجر پا کر وہ سبز تن تھا شفق پیرہن کھلا اس پر بنا گلاب سا وہ لمس یک نظر پا کر وہ ...

    مزید پڑھیے

    وفا کر مگر استواری نہ رکھ

    وفا کر مگر استواری نہ رکھ کوئی بوجھ سینے پہ بھاری نہ رکھ محبت کے بدلے محبت نہ مانگ کہ یہ سلسلہ کاروباری نہ رکھ کسی اور حیلے سے کر مستفیض فقط رسم بادہ گساری نہ رکھ تو آیا ہے تو حرف مطلب پہ آ زباں پر بہت خاکساری نہ رکھ سلامت نہیں سر تو دستار کیا بہت اونچی اپنی اٹاری نہ ...

    مزید پڑھیے

    شریک غم کوئی کب معتبر نکلتا ہے

    شریک غم کوئی کب معتبر نکلتا ہے سوائے دل کے سو وہ بے خبر نکلتا ہے یہ کیسا شہر ہے کیسی ہے سر زمیں اس کی جہاں کی خاک پلٹتا ہوں سر نکلتا ہے جدھر ہیں پیاسے ادھر بارشیں ہیں تیروں کی جدھر غنیم ہے دریا ادھر نکلتا ہے اسے خبر ہے کہ ظلمت ہے صف بہ صف ہر سو اجالا ہاتھ میں لے کر سپر نکلتا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے سینے کو مرے زخموں سے بھرنے والی

    اپنے سینے کو مرے زخموں سے بھرنے والی تو کہاں کھو گئی خوشبو سی بکھرنے والی میں تو ہو جاؤں گا روپوش تہ خاک مگر ایک خواہش ہے مرے دل میں نہ مرنے والی آنکھیں ویران ہیں ہونٹوں پہ سلگتے ہیں سراب تہہ نشیں ہو گئی ہر موج ابھرنے والی اک سکوں پا گیا جا کر تہہ دریا پتھر اب بلا کوئی نہیں سر ...

    مزید پڑھیے

    اس نے سوچا بھی نہیں تھا کبھی ایسا ہوگا

    اس نے سوچا بھی نہیں تھا کبھی ایسا ہوگا دل ہی اصرار کرے گا کہ بچھڑنا ہوگا کشتیاں ریت پہ بیٹھی ہیں امیدیں باندھے ایسا لگتا ہے یہ صحرا کبھی دریا ہوگا اک اداسی مری دہلیز پہ بیٹھی ہوگی ایک جگنو مرے کمرے میں بھٹکتا ہوگا تم نے وہ زخم دیا ہے مری تنہائی کو جو نہ آسودۂ غم ہوگا نہ اچھا ...

    مزید پڑھیے

    دل آئینہ ساماں پارہ پارہ کر کے دیکھا جائے

    دل آئینہ ساماں پارہ پارہ کر کے دیکھا جائے ستاروں کو کبھی محو نظارہ کر کے دیکھا جائے کبھی تا دیر شبنم تخت گل پر بھی نہیں رہتی امیر شہر کو اتنا اشارہ کر کے دیکھا جائے چمکتا ہے سر مژگاں نم جو ٹوٹ کر دل سے چلو اس اشک خونی کو ستارہ کر کے دیکھا جائے ہری کانٹوں بھری بیلیں مری سانسوں ...

    مزید پڑھیے

    آرزو جینے کی تھی امکان جینے کا نہ تھا

    آرزو جینے کی تھی امکان جینے کا نہ تھا خواہشیں تھیں صف بہ صف سامان جینے کا نہ تھا قرض تھا تیرا سو جیتے جی تجھے لوٹا دیا زندگی ورنہ مجھے ارمان جینے کا نہ تھا دوستی زہراب سے کی رنج و غم سے کی نباہ ورنہ یہ ماحول میری جان جینے کا نہ تھا زندگی تو چھوڑ میرا ساتھ میں بے زار ہوں میرا ...

    مزید پڑھیے

    اب یہی بہتر ہے نقش آب ہونے دے مجھے

    اب یہی بہتر ہے نقش آب ہونے دے مجھے یوں ہی رسوا خاطر احباب ہونے دے مجھے نیند آنکھوں میں پرندوں کی طرح اتری ہے آج اے نفس آہستہ چل غرقاب ہونے دے مجھے ایک ٹکڑا ابر کا پھرتا ہے مانند غزال اے مری چشم ہوس سیراب ہونے دے مجھے عمر بھر میں ایک کام ایسا تو کر شوق جنوں میں اگر دریا ہوں تو بے ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پہ سخن آنکھوں میں نم بھی نہیں اب کے

    ہونٹوں پہ سخن آنکھوں میں نم بھی نہیں اب کے اس طرح وہ بچھڑا ہے کہ غم بھی نہیں اب کے خود کو دل سرکش نے بھی رکھا نہ کہیں کا جینے پہ رضامند تو ہم بھی نہیں اب کے تنہا ہیں تو درپیش ہیں خطرات سفر اور یوں بے سر و ساماں یہاں کم بھی نہیں اب کے کیا کہئے کہ جو منہ میں زباں بھی نہیں اپنی افسوس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3