دل آئینہ ساماں پارہ پارہ کر کے دیکھا جائے
دل آئینہ ساماں پارہ پارہ کر کے دیکھا جائے
ستاروں کو کبھی محو نظارہ کر کے دیکھا جائے
کبھی تا دیر شبنم تخت گل پر بھی نہیں رہتی
امیر شہر کو اتنا اشارہ کر کے دیکھا جائے
چمکتا ہے سر مژگاں نم جو ٹوٹ کر دل سے
چلو اس اشک خونی کو ستارہ کر کے دیکھا جائے
ہری کانٹوں بھری بیلیں مری سانسوں سے لپٹی ہیں
اذیت ہی سہی کچھ دن گزارہ کر کے دیکھا جائے
کہاں فرصت فرشتوں سی کہ ہم یہ درد سر مولیں
حساب دوستاں کو گوشوارہ کر کے دیکھا جائے
ہمیں دل جیتنے کا فن تو آتا ہے مگر سوچا
کبھی ایسا بھی ہو اپنا خسارہ کر کے دیکھا جائے
نہ جانے کتنے عالم ہیں مجیبیؔ ایک عالم میں
اگر دنیا کو دنیا سے کنارہ کر کے دیکھا جائے