وفا کر مگر استواری نہ رکھ

وفا کر مگر استواری نہ رکھ
کوئی بوجھ سینے پہ بھاری نہ رکھ


محبت کے بدلے محبت نہ مانگ
کہ یہ سلسلہ کاروباری نہ رکھ


کسی اور حیلے سے کر مستفیض
فقط رسم بادہ گساری نہ رکھ


تو آیا ہے تو حرف مطلب پہ آ
زباں پر بہت خاکساری نہ رکھ


سلامت نہیں سر تو دستار کیا
بہت اونچی اپنی اٹاری نہ رکھ


حقیقت تجھے مار ڈالے گی سن
مجیبیؔ بہت جانکاری نہ رکھ