ہونٹوں پہ سخن آنکھوں میں نم بھی نہیں اب کے

ہونٹوں پہ سخن آنکھوں میں نم بھی نہیں اب کے
اس طرح وہ بچھڑا ہے کہ غم بھی نہیں اب کے


خود کو دل سرکش نے بھی رکھا نہ کہیں کا
جینے پہ رضامند تو ہم بھی نہیں اب کے


تنہا ہیں تو درپیش ہیں خطرات سفر اور
یوں بے سر و ساماں یہاں کم بھی نہیں اب کے


کیا کہئے کہ جو منہ میں زباں بھی نہیں اپنی
افسوس کہ ہاتھوں میں قلم بھی نہیں اب کے


بے رحم جدائی کا سبب بھی نہیں معلوم
اک گونہ تعلق کا بھرم بھی نہیں اب کے


کیا جانے مجیبیؔ دل قاتل میں ہے کیا آج
محضر میں کوئی جرم رقم بھی نہیں اب کے