Siddique Mujibi

صدیق مجیبی

صدیق مجیبی کی غزل

    ہوس مٹتی نہیں خوف خدا پامال رکھتا ہے

    ہوس مٹتی نہیں خوف خدا پامال رکھتا ہے عجب سرکش ہے دل میرا کہ حسب حال رکھتا ہے وہی آنکھیں ہیں جو گنج گراں مایہ لٹاتی تھیں وہی دل اب ہے اپنے آپ کو کنگال رکھتا ہے رفاقت کوئی مجبوری نہ اپنی تھی نہ اس کی تھی مگر وہ میرے روز و شب کے سب احوال رکھتا ہے برہنہ شام دھندلے آئنے میں جیسے گھل ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک بوند تھی اوراق جاں میں پھیل گئی

    بس ایک بوند تھی اوراق جاں میں پھیل گئی ذرا سی بات مری داستاں میں پھیل گئی ہوا نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ لو میری تمام شش جہت جسم و جاں میں پھیل گئی وہ خواب تھا کہ کھلا تھا دریچۂ شب ہجر ترے وصال کی خوشبو مکاں میں پھیل گئی جو اس کے بعد ہوا اس سے بے خبر تھے سب ہوا نے کچھ نہ کہا بادباں ...

    مزید پڑھیے

    نشاط غم کے تئیں اک خط مماس ہوں آج

    نشاط غم کے تئیں اک خط مماس ہوں آج نصیب دشمناں زندہ ہوں بے ہراس ہوں آج جدائی درد محبت تھی رسم ختم ہوئی نہ وہ اداس ہوا کل نہ میں اداس ہوں آج غریب دل بھی عجب غم نواز ہوتا ہے خوشی ملی ہے تو کس درجہ بد حواس ہوں آج میں در بہ در ہوں کہ مارا ہوا ضمیر کا ہوں میں آئنہ تھا مگر کتنا بے لباس ...

    مزید پڑھیے

    پیاسا جو میرے خوں کا ہوا تھا سو خواب تھا

    پیاسا جو میرے خوں کا ہوا تھا سو خواب تھا نیندوں میں زہر گھول رہا تھا سو خواب تھا کانٹا جو دل کے پار ہے تعبیر ہے سو یہ صحرا میں اک گلاب کھلا تھا سو خواب تھا اک التجا تھی آنکھوں میں پتھرا کے رہ گئی اک عکس سنگ در پہ کھڑا تھا سو خواب تھا پہلے زمین خاک ہوئی تھی بہ صد نیاز شب بھر پھر ...

    مزید پڑھیے

    وہی رنگ رخ پہ ملال تھا یہ پتہ نہ تھا

    وہی رنگ رخ پہ ملال تھا یہ پتہ نہ تھا مرا غم بھی شامل حال تھا یہ پتہ نہ تھا وہی شام آخری شام تھی یہ خبر نہ تھی وہی وقت وقت زوال تھا یہ پتہ نہ تھا مجھے کر گیا جو تہی تہی بھرے شہر میں وہ مرا ہی دست سوال تھا یہ پتہ نہ تھا مجھے بت بنا کے چلے گئے کہ نہ رو سکوں انہیں میرا اتنا خیال تھا یہ ...

    مزید پڑھیے

    سنبھال اے مری مٹی بدل نہ جاؤں کہیں

    سنبھال اے مری مٹی بدل نہ جاؤں کہیں مجھے رلا دے کہ پتھر میں ڈھل نہ جاؤں کہیں کمان جاں میں ہوں اک آخری نفس کا تیر میں دسترس سے بھی اپنی نکل نہ جاؤں کہیں سمیٹ لے مرے مہتاب مجھ کو سینے میں جھلس رہی ہے کوئی شے میں جل نہ جاؤں کہیں وفا کے نام پہ دے جو فریب دے مجھ کو تباہ ہونے سے پہلے ...

    مزید پڑھیے

    بھولی بسری بات ہے لیکن اب تک بھول نہ پائے ہم

    بھولی بسری بات ہے لیکن اب تک بھول نہ پائے ہم مٹھی بھر تاروں کی خاطر اپنا چاند گنوائے ہم اب تو تمہارے حصے کا بھی پیار ہمیں کرنا پڑتا ہے تم سے سن کر جتنے قصے یاد تھے سب دہرائے ہم تم ہوتے تو بیتابی سے ہم کو لگا لیتے سینے سے جن راتوں میں دکھ جھیلے ہیں جن میں رنج اٹھائے ہم نیند کہاں ...

    مزید پڑھیے

    بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا

    بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا آسماں بکھرا تو ہر سو شبنمی دانوں میں تھا میں نے جس زینے پہ رکھا پا تو مجھ کو ڈس گیا جب بھی دانہ میں نے پھینکا سانپ کے خانوں میں تھا پھر کوئی موج بلا کیسے مرا سر لے گئی اے خدا میرے خدا تو بھی نگہبانوں میں تھا اک لہو کی بوند تھی لیکن ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی نقش نہ پیکر سراب چاروں طرف

    نہ کوئی نقش نہ پیکر سراب چاروں طرف تمام دشت اسیر عذاب چاروں طرف مسیح وقت اب آئے تو بس خدا آئے پیمبروں کی زمیں اور عذاب چاروں طرف میں بیچوں بیچ کھڑا ہوں سلگتے جنگل میں حصار باندھے ہوئے آفتاب چاروں طرف ہمارے نام لکھی جا چکی تھی رسوائی ہمیں تو ہونا تھا یوں بھی خراب چاروں ...

    مزید پڑھیے

    رات ہوئی پھر ہم سے اک نادانی تھوڑی سی

    رات ہوئی پھر ہم سے اک نادانی تھوڑی سی دل سرکش تھا کر بیٹھا من مانی تھوڑی سی تھوڑی سی سرشاری نے دی گہری دھند میں راہ بہم ہوئی آنکھوں کو تب آسانی تھوڑی سی بچھڑا وہ تو لوٹ آنے کی راہ نہ کھوٹی کی کنج میں دل کے چھوڑ گیا ویرانی تھوڑی سی یارب پھر سے بھیج طلسم ہوش ربا کوئی وقت عطا کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3