Siddique Mujibi

صدیق مجیبی

صدیق مجیبی کے تمام مواد

28 غزل (Ghazal)

    دل ہی گرداب تمنا ہے یہیں ڈوبتے ہیں

    دل ہی گرداب تمنا ہے یہیں ڈوبتے ہیں اپنے ہی غم میں ترے خاک نشیں ڈوبتے ہیں دل فقیرانہ تھا مہر و مہ و انجم نہ بنے خس کی مانند رہے ہم کہ نہیں ڈوبتے ہیں ہم اگر ڈوبے تو کیا کون سے ایسے ہم تھے شہر کے شہر جہاں زیر زمیں ڈوبتے ہیں اپنی روپوشی تہ خاک مقدر ہے تو کیا ڈوبنے کو تو ستارے بھی ...

    مزید پڑھیے

    زبان خلق کو چپ آستیں کو تر پا کر

    زبان خلق کو چپ آستیں کو تر پا کر میں آب دیدہ ہوا خوں کو در بدر پا کر یہ کس کے قرب کی خوشبو بسی ہے سانسوں میں یہ مجھ سے کون ملا مجھ کو بے خبر پا کر سفر کی شرط کبھی اس قدر کڑی کب تھی تھکن کچھ اور بڑھی سایۂ شجر پا کر وہ سبز تن تھا شفق پیرہن کھلا اس پر بنا گلاب سا وہ لمس یک نظر پا کر وہ ...

    مزید پڑھیے

    وفا کر مگر استواری نہ رکھ

    وفا کر مگر استواری نہ رکھ کوئی بوجھ سینے پہ بھاری نہ رکھ محبت کے بدلے محبت نہ مانگ کہ یہ سلسلہ کاروباری نہ رکھ کسی اور حیلے سے کر مستفیض فقط رسم بادہ گساری نہ رکھ تو آیا ہے تو حرف مطلب پہ آ زباں پر بہت خاکساری نہ رکھ سلامت نہیں سر تو دستار کیا بہت اونچی اپنی اٹاری نہ ...

    مزید پڑھیے

    شریک غم کوئی کب معتبر نکلتا ہے

    شریک غم کوئی کب معتبر نکلتا ہے سوائے دل کے سو وہ بے خبر نکلتا ہے یہ کیسا شہر ہے کیسی ہے سر زمیں اس کی جہاں کی خاک پلٹتا ہوں سر نکلتا ہے جدھر ہیں پیاسے ادھر بارشیں ہیں تیروں کی جدھر غنیم ہے دریا ادھر نکلتا ہے اسے خبر ہے کہ ظلمت ہے صف بہ صف ہر سو اجالا ہاتھ میں لے کر سپر نکلتا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے سینے کو مرے زخموں سے بھرنے والی

    اپنے سینے کو مرے زخموں سے بھرنے والی تو کہاں کھو گئی خوشبو سی بکھرنے والی میں تو ہو جاؤں گا روپوش تہ خاک مگر ایک خواہش ہے مرے دل میں نہ مرنے والی آنکھیں ویران ہیں ہونٹوں پہ سلگتے ہیں سراب تہہ نشیں ہو گئی ہر موج ابھرنے والی اک سکوں پا گیا جا کر تہہ دریا پتھر اب بلا کوئی نہیں سر ...

    مزید پڑھیے

تمام