شارق کیفی کی غزل

    اچھا تو تم ایسے تھے

    اچھا تو تم ایسے تھے دور سے کیسے لگتے تھے ہاتھ تمہارے شال میں بھی کتنے ٹھنڈے رہتے تھے سامنے سب کے اس سے ہم کھنچے کھنچے سے رہتے تھے آنکھ کہیں پر ہوتی تھی بات کسی سے کرتے تھے قربت کے ان لمحوں میں ہم کچھ اور ہی ہوتے تھے ساتھ میں رہ کر بھی اس سے چلتے وقت ہی ملتے تھے اتنے بڑے ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    سچ تو بیٹھ کے کھاتا ہے

    سچ تو بیٹھ کے کھاتا ہے جھوٹ کما کر لاتا ہے یاد بھی کوئی آتا ہے یاد تو رکھ جاتا ہے جیسے لفظ ہوں ویسا ہی منہ کا مزہ ہو جاتا ہے پھر دشمن بڑھ جائیں گے کس کو دوست بناتا ہے کیسی خشک ہوائیں ہیں صبح سے دن چڑھ جاتا ہے اسے گھٹا کر دنیا میں باقی کیا رہ جاتا ہے جانے وہ اس چہرہ پر کس کا ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے

    ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے اپنے ماحول میں خود کو دیکھے ہوئے ایک دن ہم اچانک بڑے ہو گئے کھیل میں دوڑ کر اس کو چھوتے ہوئے سب گزرتے رہے صف بہ صف پاس سے میرے سینے پہ اک پھول رکھتے ہوئے جیسے یہ میز مٹی کا ہاتھی یہ پھول ایک کونے میں ہم بھی ہیں رکھے ہوئے شرم تو آئی لیکن خوشی بھی ...

    مزید پڑھیے

    اداس ہیں سب پتا نہیں گھر میں کیا ہوا ہے

    اداس ہیں سب پتا نہیں گھر میں کیا ہوا ہے ہمارا اتنا خیال کیوں رکھا جا رہا ہے کچھ اتنا خوش فہم ہو گیا ہوں کہ اپنا چہرہ پرائی آنکھوں سے جب بھی دیکھا برا لگا ہے ابھی تو اچھی لگے گی کچھ دن جدائی کی رت ابھی ہمارے لیے یہ سب کچھ نیا نیا ہے خوشی ہوئی تھی کہ اب میں تنہا نہیں ہوں لیکن یہ ...

    مزید پڑھیے

    رات بے پردہ سی لگتی ہے مجھے

    رات بے پردہ سی لگتی ہے مجھے خوف نے ایسی نظر دی ہے مجھے آہ اس معصوم کو کیسے بتاؤں کیوں اسے کھونے کی جلدی ہے مجھے جوش میں ہیں اس قدر تیماردار ٹھیک ہوتے شرم آتی ہے مجھے اک لطیفہ جو سمجھ میں بھی نہ آئے اس پہ ہنسنا کیوں ضروری ہے مجھے منتشر ہونے لگے سارے خیال نیند بس آنے ہی والی ہے ...

    مزید پڑھیے

    خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے

    خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے اشاروں کو ترے پڑھنے کی جرأت اب ہوئی ہے عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے گماں ہوں یا حقیقت سوچنے کا وقت کب تک یہ ہو کر بھی نہ ہونے کی مصیبت اب ہوئی ہے اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں پرانا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خود کو چھوکر نہیں دیکھتا ہوں

    کبھی خود کو چھوکر نہیں دیکھتا ہوں خدا جانے بس وہم میں مبتلا ہوں کہاں تک یہ رفتار قائم رہے گی کہیں اب اسے روکنا چاہتا ہوں وہ آ کر منا لے تو کیا حال ہوگا خفا ہو کے جب اتنا خوش ہو رہا ہوں فقط یہ جتاتا ہوں آواز دے کر کہ میں بھی اسے نام سے جانتا ہوں گلی میں سب اچھا ہی کہتے تھے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    عجب شکست کا احساس دل پہ چھایا تھا

    عجب شکست کا احساس دل پہ چھایا تھا کسی نے مجھ کو نشانا نہیں بنایا تھا اسی نگاہ نے آنکھوں کو کر دیا پتھر اسی نگاہ میں سب کچھ نظر بھی آیا تھا یہاں تو ریت ہے پتھر ہیں اور کچھ بھی نہیں وہ کیا دکھانے مجھے اتنی دور لایا تھا الجھ گیا ہوں کچھ ایسا کہ یاد بھی تو نہیں یہ وہم پہلے پہل کیسے ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے

    یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے بس یہی بے گھروں کی عزت ہے اب سنورنے کا وقت اس کو نہیں جب ہمیں دیکھنے کی فرصت ہے تجھ سے میری برابری ہی کیا تجھ کو انکار کی سہولت ہے قہقہہ ماریے میں کچھ بھی نہیں مسکرانے میں جتنی محنت ہے سیر دنیا کو آ تو جاؤ مگر واپسی میں بڑی مصیبت ہے یہ جو اک شکل ...

    مزید پڑھیے

    جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا

    جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا غلط موسم میں صحرا دیکھ آیا ڈگر اور منزلیں تو ایک سی تھیں وہ پھر مجھ سے جدا کیا دیکھ آیا ہر اک منظر کے پس منظر تھے اتنے بہت کچھ بے ارادہ دیکھ آیا کسی کو خاک دے کر آ رہا ہوں زمیں کا اصل چہرہ دیکھ آیا رکا محفل میں اتنی دیر تک میں اجالوں کا بڑھاپا دیکھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4