سچ تو بیٹھ کے کھاتا ہے
سچ تو بیٹھ کے کھاتا ہے
جھوٹ کما کر لاتا ہے
یاد بھی کوئی آتا ہے
یاد تو رکھ جاتا ہے
جیسے لفظ ہوں ویسا ہی
منہ کا مزہ ہو جاتا ہے
پھر دشمن بڑھ جائیں گے
کس کو دوست بناتا ہے
کیسی خشک ہوائیں ہیں
صبح سے دن چڑھ جاتا ہے
اسے گھٹا کر دنیا میں
باقی کیا رہ جاتا ہے
جانے وہ اس چہرہ پر
کس کا دھوکہ کھاتا ہے
عشق سے بڑھ کر کون ہمیں
دنیا دار بناتا ہے
دل جیسا معصوم بھی آج
اپنی عقل چلاتا ہے
کچھ تو ہے جو صرف یہاں
میری سمجھ میں آتا ہے
مشکل سن لی جاتی ہے
کوئی کرم فرماتا ہے